معروف شاعر ظفر اقبال کا جنم دن

آغا نیاز مگسی
zafar iqbal

یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا

ظفر اقبال

27 ستمبر 1933: تاریخ پیدائش

اردو کے ممتاز شاعر ،ادیب و کالم نگار ظفر اقبال 27 ستمبر 1933 میں بہاول نگر کے ایک نواحی گائوں میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم بہاول نگر سے میٹرک اوکاڑہ سے ، سیکنڈ ایئر گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایل ایل بی لاء کالج اور پنجاب یونیورسٹ سے کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے اوکاڑہ میں وکالت کی پریکٹس اور صحافت شروع کر دی وہ ایک بار اوکاڑہ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور دو بار اوکاڑہ پریس کلب کے صدر منتخب ہوئے ۔ ظفر اقبال کا پہلا شعری مجموعہ کلام ’’آب رواں‘‘ 1962ء میں شائع ہوا جس کے شائع ہوتے ہی ظفر اقبال اردو کے صف اول کے شعرأ میں شامل ہو گئے ۔ جس کے بعد ان کے دیگر مجموعے گلافتاب، رطب و یابس، عہد زیاں،غبار آلود سمتوں کا سراغ، سر عام ، عیب و ہنر، ہے ہنومان، اطراف اور تفاوت کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کی شاعری کی کلیات ’’اب تک‘‘ کے نام سے تین جلدوں میں شائع ہوچکی ہے،ان کے کالموں کا مجموعہ ’’دال دلیہ‘‘ کے نام سے شائع ہواہے۔ ظفر اقبال اردو سائنس بورڈ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا ہے ۔ معروف کالم نگار و اینکر پرسن آفتاب اقبال ان کے فرزند اور عائشہ نور ان کی پوتی ہیں ۔

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا
کہ دھیان ہی نہ رہا غم کی بے لباسی کا

چمک اٹھے ہیں جو دل کے کلس یہاں سے ابھی
گزر ہوا ہے خیالوں کی دیو داسی کا

گزر نہ جا یوں ہی رخ پھیر کر سلام تو لے
ہمیں تو دیر سے دعوی ہے روشناسی کا

خدا کو مان کہ تجھ لب کے چومنے کے سوا
کوئی علاج نہیں آج کی اداسی کا

گرے پڑے ہوئے پتوں میں شہر ڈھونڈتا ہے
عجیب طور ہے اس جنگلوں کے باسی کا
،۔۔۔۔۔۔۔۔۔. . . ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
کچھ نہیں سمجھا ہوں اتنا مختصر پیغام تھا
کیا ہوا تھی جس ہوا کے ہاتھ پر پیغام تھا

اس کو آنا تھا کہ وہ مجھ کو بلاتا تھا کہیں
رات بھر بارش تھی اس کا رات بھر پیغام تھا

لینے والا ہی کوئی باقی نہیں تھا شہر میں
ورنہ تو اس شام کوئی در بدر پیغام تھا

منتظر تھی جیسے خود ہی تنکا تنکا آرزو
خار و خس کے واسطے گویا شرر پیغام تھا

کیا مسافر تھے کہ تھے رنج سفر سے بے نیاز
آنے جانے کے لیے اک رہگزر پیغام تھا

کوئی کاغذ ایک میلے سے لفافے میں تھا بند
کھول کر دیکھا تو اس میں سر بہ سر پیغام تھا

ہر قدم پر راستوں کے رنگ تھے بکھرے ہوئے
چلنے والوں کے لیے اپنا سفر پیغام تھا

کچھ صفت اس میں پرندوں اور پتوں کی بھی تھی
کتنی شادابی تھی اور کیسا شجر پیغام تھا

اور تو لایا نہ تھا پیغام ساتھ اپنے ظفرؔ
جو بھی تھا اس کا یہی عیب و ہنر پیغام تھا

Comments are closed.