ظاہر جعفر کے ڈرامے بے نقاب، تحریر: عفیفہ راؤ

0
35

نورمقدم کیس پر اس وقت کافی تیزی سے ٹرائل ہو رہا ہے۔ عدالت میں چار چار گھنٹے کی سماعت ہو رہی ہے۔ پہلے بتایا تھا کہ کیسے جعفر خاندان کے ملازمین کے جھوٹ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے بے نقاب ہوئے تھے اور یہ بھی کہ نور نے درندے کے گھر سے ایک بار نہیں بلکہ دو بار بھاگنے کی کوشش کی تھی جو ملازمین نے ناکام بنا دی تھی۔

عدالت میں مزید کیا کچھ ہوا سی سی ٹی وی فوٹیج کے حوالے سے عدالت نے کیا فیصلہ کیا، درندے کے موبائل فون اور لیب ٹاپ کے فرانزک کا کیا بنا، ایک بار پھر عدالت سے ظاہر جعفر کو کیوں نکالا گیا، عدالت کے سامنے وہ کیا منتیں کرتا رہا اور ملازمین کے مزید جھوٹ کون سے جھوٹ سامنے آ گئے ہیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیج جس کو حاصل کرنے کے لئے ملزمان کے وکیل پہلے دن سے ہی بہت زور لگا رہے تھے کہ ہمیں فوٹیج دی جائے تاکہ ہمیں اپنا کیس تیار کرنے میں آسانی ہو۔ ویسے تو یہ چالیس گھنٹوں کی فوٹیج ہے لیکن اس فوٹیج میں سے کچھ اہم حصوں کو الگ کرکے بھی ایک فوٹیج تیار کی گئی ہے۔ ہر سماعت کی طرح حالیہ سماعت میں بھی ملزمان کے وکلاء نے مطالبہ کیا کہ ہمیں سی سی ٹی وی فوٹیج کی کاپی دی جائے جس پر شاہ خاور نے کہہ کہ کیوں نہ فوٹیج کو عدالت میں ایک بار دکھا دیا حائے اس کے بعد وکلاء کو دے دی جائے کیونکہ اس پورے کیس میں یہ فوٹیج سب سے زیادہ اہم ہے اور نور کی فیملی اور وکیل یہ نہیں چاہتے کہ عدالت میں فوٹیج چلنے سے پہلے یہ کہیں اور وائرل ہو۔ لیکن اس فوٹیج کے بارے میں آج عدالت نے بالآخر فیصلہ کر دیا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی پانچ کاپیاں تیار کی جائیں اور ملزمان کے وکلاء کو دے دی جائیں اس طرح اب جمعہ کے روز فوٹیج ان سب کو مل جائے گی جس پر یہ اپنے کیس کی تیاری کریں گے اس لئے آنے والی سماعتیں اب اور بھی زیادہ اہم ہوں گی۔
اس کے علاوہ درندے کے موبائل فون اور لیب ٹاپ کو بھی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ اور اس پر جو موقف اختیار کیا گیا ہے جب میں نے وہ سنا تو یقین جانیں کہ میں نے تو اپنا سر پکڑ لیا تھا کہ آج کے دور میں بھی اس طرح کی بات کیسے کی جاسکتی ہے۔ ہوا یہ کہ عدالت میں بتایا گیا کہ یہ لیب ٹاپ اور فون پاسورڈ نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک کھل نہیں سکے اور ان کا ڈیٹا حاصل نہیں ہو سکا۔ اور اب اگر ہم اس پر بار بار غلط پاسورڈ لگائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ڈیٹا ہی ڈیلیٹ ہو جائے۔ سوچیں ایک کیس انڈیا میں سوشانت سنگھ کی خودکشی کا ہوا تھا جس میں انہوں نے واٹس ایپ کے ڈیلیٹ شدہ میسجز بھی Retrieveکروا لئے تھے۔ لیکن ہماری پولیس اور ایف آئی اے کا حال دیکھ لیں کہ انہوں نے صاف جواب ہی دے دیا ہے کہ جی یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اور اس طرح کے جواب پر اب تو مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اس درندے کے خاندان کی طرف سے اس کیس پر خوب پیسہ لگایا جا رہا ہے۔ کہ پہلے تو پولیس موقع واردات سے موبائل لینا ہی بھول گئی تھی جب موبائل لے لیا گیا تو ٹوٹی ہوئی سکرین کا کہہ کر اسے پڑا رہنے دیا حالانکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ موبائل فون کی سکرین آرام سے تبدیل ہو سکتی ہے لیکن نہیں جب تک ہم نے آواز نہیں اٹھائی اس پر کسی کو دھیان ہی نہیں گیا اور اب جب درندہ ان کے قبضے میں ہے تو اس سے یہ موبائل اور لیب ٹاپ کا پاسورڈ نہیں اگلوا سکے حالانکہ یہ پولیس والے جب اپنی کرنے پر آتے ہیں تو ملزم سے وہ گناہ بھی منوا لیتے ہیں جو اس نے نہیں کیا ہوتا لیکن حیرت ہے کہ اسلام آباد پولیس اس درندے سے ایک پاسورڈ نہیں اگلوا سکی۔ ایف آئی اے کی بھی یہ حالت ہے کہ وہ عدالت کو یہ جواب دے رہے ہیں کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔

اس کے علاوہ ایک بار پھر عدالت سے درندے کو باہر نکال دیا گیا کیونکہ وہ بار بار گواہوں کی جرح کی کاروائی میں خلل ڈال رہا تھا۔ اس سماعت میں درندے نے نیشنل فرانزک کرائم ایجنسی کے انچارج محمد عمران کی جرح کے دوران بولنا شروع کردیا اور ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی سے منت کرنی شروع کر دی۔ ظاہر جعفر نے کہا کہ جناب عطاء ربانی، کیا میں آپ کے قریب آ سکتا ہوں، مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ آپ میری بات سن رہے ہیں؟ اس کے بعد درندے نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد دوبارہ بولنا شروع کر دیا اور کہا کہ جج عطا ربانی، میرا راضی نامہ کروا دیں، میں عدالت کے قریب آ کر کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔اس دوران درندے ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی بھی عدالت میں ہی موجود تھیں۔ جس نے پچھلی سماعت پر عدالت کو بہت یقین دلایا تھا کہ درندے کی طرف سے دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں ہو گی۔ خیر جب جج عطا ربانی کی جانب سے جب کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا تو درندے نے ایک بار پھر جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جناب عطاء ربانی کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں۔ اس پر جج عطا ربانی نے ملزمان کے وکلاء سے پوچھا کیا ملزم کی کمرہ عدالت میں موجودگی ضروری ہے؟ اس کی حاضری لگوا کر بھجوا دیں۔ سوچیں آج یہ راضی نامے کی بات کر رہا ہے عدالت میں بار بار کہتا ہے میری بات سنیں۔ اب کوئی اس درندے سے پوچھے کہ جب نور اس کی اور اس کے ملازمین کی منتیں کر رہی تھی کہ اس کو جانے دیا جائے تب اس نے نور کی بات کیوں نہیں سنی کیوں اس پر تشدد کیا کیوں اسے جانے نہیں دیا۔ اس کے علاوہ محمد عمران نے اپنے بیان میں عدالت کو بتایا کہ اس نے کمرے سے کیا کیا شواہد اکھٹے کئے تو اس میں چاقو، پستول جس میں ایک میگزین لگا ہوا تھا اور دوسرا میگزین بھی ساتھ میز پر رکھا تھا، ایک لوہے کا مکا تھا اور چار سگریٹ تھے جو اکٹھے کیے گئے اب ان چیزوں کی موجودگی سے آپ سوچیں اس لڑکی کو جان سے مارنے سے پہلے کتنا تشدد کیا گیا ہو گا۔ اوراس نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ نورمقدم کا سر کھڑکی کے پاس سے ملا تھا اور چاقو شیلف پر رکھا ہوا تھا۔

لیکن یہ درندہ اس کے ماں باپ ملازمین اور تھراپی ورکس والے اپنے آپ کو معصوم ثابت کرنے کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں۔ ویسے تو اس کیس کے شروع میں ہی جو ایک کام ہوا کہ ان سب کو فورا گرفتار نہیں کیا گیا تھا اس سے ان سب کو موقع مل گیا تھا کہ یہ آپس میں پلان کرکے ایک جیسے بیانات پولیس کو دیں لیکن پھر بھی وہ کہتے ہیں نا کہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے جھوٹ آخر پکڑا ہی جاتا ہے تو جیسے جیسے کیس کی تفصیلات اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی تفصیل سامنے آ رہی ہے ان کے جھوٹ بھی پکڑے جا رہے ہیں۔ سوچیں جو ملازمین یہ بھی جانتے تھے اگر دروازہ بند ہے تو کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی ہے وہاں سے درندے کے کمرے میں جایا جا سکتا ہے۔ تھراپی ورکس والوں کو سیڑھی بھی انھیں ملازمین نے لا کر دی تو کیا وہ اس لڑکی کی جان بچانے کے لئے کچھ نہیں کر سکتے تھے لیکن نہیں یہ ملازمین تو جان کر گیٹ بند کر دیتے تھے تاکہ نور بھاگ نہ پائے اور اسے پکڑ کر واپس درندے کے حوالے کر دیتے تھے اور تھراپی ورکس والے جو معصوم بن رہے ہیں کہ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ ظاہر جعفر کی حالت ٹھیک نہیں تھی ہم تو مریض کو لینے گئے تھے۔ تو کوئی ان سے پوچھے کہ مریض کو لانے کے لئے کونسی ڈاکٹرز کی ٹیم وکیل کو ساتھ لے کر جاتی ہے۔ کیونکہ تھراپی ورکس والوں کے ساتھ وکیل دلیپ کمار بھی تھا۔ اور اس کو ساتھ لے کر جانے کا مقصد یہ تھا کہ کیسے موقع واردات سے ثبوتوں کو مٹایا جائے، نور کی باڈی کو ٹھکانے لگایا جائے اور کیس کو خراب کیا جائے۔ تاکہ اس درندے کی جان بچ جائے۔ کیونکہ یاد کریں اس درندے نے اپنے باپ کو جب فون پر بتایا تھا کہ میں نے نور کو مار دیا ہے تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ تم پریشان نہ ہو میں سب سنبھال لوں گا۔ ٹیم آ رہی ہے وہ تمھیں یہاں سے نکال لے گی۔ اس لئے تھراپی ورکس والے اپنی پوری تیاری سے گئے تھے اور مجھے تو یقین ہے کہ امجد پر بھی جو حملہ کیا گیا وہ بھی ڈرامہ کیا گیا۔ تاکہ اس کی ذہنی حالت خراب ثابت کی جا سکے۔ ورنہ جس طرح اس کے پاس اسلحہ تھا اگر وہ مارنا چاہتا تو وہ آرام سے امجد کو مار سکتا تھا۔اور جو یہ بیان دیا گیا کہ ظاہر نے اس وقت امجد سے کہا تھا کہ میں تمھیں بھی ماروں گا اور خود بھی خودکشی کروں گا۔

تو یہ بھی ایک ڈرامہ ہی ہے کیونکہ اگر اس نے اپنی جان لینی ہوتی تو نور کو مارنے کے فورا بعد اپنی جان لے چکا ہوتا اپنے باپ کو فون نہ کرتا کہ مجھ سے قتل ہو گیا ہے اور مجھے بچا لو۔ ابھی تک جیسے ان کے پہلے والے ڈرامے بے نقاب ہوتے رہے ہیں انشااللہ باقی کے ڈارمے بھی آنے والے دنوں میں پکڑے جائیں گے۔اب عدالت نے اگلی سماعت جو کہ سترہ نومبر کو ہوگی اس پر ہیڈ کانسٹیبل جابر، کمپیوٹر آپریٹر مدثر، اے ایس آئی دوست محمد اور ڈاکٹر شازیہ کو طلب کرلیا ہے اب ان کی گواہی اور اس پر جراح ہو گی۔ اور مزید بہت سے انکشافات اس کیس کے حوالے سے سامنے آئیں جس سے ان درندوں کے جھوٹ مزید بے نقاب ہونگے اورنور کو جلد انصاف مل سکے گا .

Leave a reply