زینب الرٹ بل، قائمہ کمیٹی کا اجلاس، پولیس مقدمہ درج نہیں کریگی تو کیا ہو گا؟ بڑا فیصلہ ہوگیا
زینب الرٹ بل، قائمہ کمیٹی کا اجلاس، پولیس مقدمہ درج نہیں کریگی تو کیا ہو گا؟ بڑا فیصلہ ہوگیا
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں زینب الرٹ اور ردعمل ترمیمی بل پر غور کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی زیرصدارت اسلام آباد میں سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں زینب الرٹ اور ردعمل ریکوری ترمیمی بل پرغور کیا گیا۔ اجلاس کے دوران ممبر کمیٹی بیرسڑ محمد علی سیف نے کہا کہ انسداد دہشتگردی کے بعض قوانین میں سقم ہیں۔ دیگر ارکان کمیٹی نے کہا کہ ٹرائل میں سزائیں واضح کریں ورنہ مجرم تعزیرات پاکستان کا سہارا لے کر بچ سکتے ہیں۔ معصوم فرشتہ کیس میں پولیس نے سیکشن پندرہ کا سہارا لیا۔
چیئرمین کمیٹی مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ جب والدین تھانے میں درخواست دیتے ہیں کہ بچہ لاپتہ ہوگیا، اس وقت پولیس بھی دفعہ ایک سو چون کا سہارا لے کر ایف آئی آر درج نہیں کرتی۔ دو دن تک یہ کہہ کر ایف آئی آر درج نہیں کی گئی کہ وہ بھاگ گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے مزید کہا کہ اب سکیشن آٹھ میں گمشدگی کی اطلاع کے بعد ایف آئی آر درج کرنے کیلئے پولیس کو پابند کردیا گیا ہے۔ اگر پولیس بروقت ایف آئی آر درج نہیں کرے گی تو سزا ہوگی.
زینب الرٹ بل، کم عمر بچوں سے زیادتی اور قتل کے جرم پر سزائے موت ختم کر دی گئی،بل میں 18سال سے کم عمربچوں سے زیادتی اور قتل کے مجرم کے لیے 10سے 14 سال قید تجویز کی گئی ہے.اس سے قبل پیش ہونے والے بل میں بچوں سے زیادتی اور قتل پر سزائے موت تجویز کی گئی تھی،بل میں مجرم پر ایک سے 2 کروڑ روپے جرمانہ کی سزا بھی تجویز کی گئی.
قائمہ کمیٹی انسانی حقوق نے قتل اورزیادتی کے مجرموں کے لیے 10سے14سال قید کی سزا تجویز کی،قائمہ کمیٹی کی رپورٹ میں جرمانہ کی سزا بھی ختم کردی گئی.
بلاول بھٹو کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے زینب الرٹ بل کو کافی عرصے تک طول دیا ,قائمہ کمیٹی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے 9 اکتوبر 2019 کو ’زینب الرٹ بل‘ کی منظوری دے دی تھی۔ کمیٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ یہ بل صرف اسلام آباد میں لاگو ہوگا۔ اسے ملک بھر میں نافذ کرنے کیلئے چاروں صوبائی اسمبلیوں کو بھی ’زینب الرٹ بل‘ پاس کرنا چاہیے تاکہ بچوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔
زینب الرٹ جوابی ردعمل اور بازیابی بل 2019ء پر قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کی رپورٹ شازیہ مری نے پیش کی۔ اسلام آباد میں معذور افراد کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بھی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے۔ وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ زینب الرٹ بل کو بغیر کسی تاخیر کے منظور کیا جائے۔ جمعہ کو بل منظور کر کے سینیٹ کو بھجوا دیا جائے۔ پہلے ہی بہت تاخیرہو چکی ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ فوری قانون سازی کا مرحلہ مکمل ہو جائے۔
زینب الرٹ بل قصور کی ننھی بچی زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بعد وقافی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے پیش کیا تھا۔ بل کا مقصد 18 سال سے کم عمر لاپتہ اور اغوا شدہ بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین واضع کرنا ہے۔ بل کے مطابق اسلام آباد میں ’چلڈرن پروٹیکشن ایکٹ 2018‘ کے تحت ادارہ قائم کیا جائے گا جبکہ لاپتہ بچوں کی فوری بازیابی کیلئے ’زارا‘ یعنی زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی کا قیام بھی بل کا حصہ ہے۔
زیب الرٹ بل کے تحت بچوں سے متعلق معلومات کے لیے پی ٹی اے، سوشل میڈیا اور دیگر اداروں کے تعاون سے ہیلپ لائن اور ایس ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل قومی کمیشن برائے حقوق طفل متعلقہ ڈویژن کی مشاورت سے سپرنٹنڈنٹ پولیس کی سربراہی میں خصوصی ٹیمیں بھی تشکیل دے گا۔
اس بل کے تحت گمشدہ بچوں کے حوالے سے ڈیٹا فراہم کرنے میں تاخیر پر سرکاری افسروں کو ایک سال تک قید کی سزا بھی ہو سکے گی۔
سر عام پھانسی کی قرارداد، پاکستان بار کونسل نے کیا بڑا اعلان
احسن اقبال کو نیب نے کیوں گرفتار کیا؟ ایسی وجہ سامنے آئی کہ ن لیگ حیران رہ گئی
احسن اقبال کی گرفتاری، مریم اورنگزیب چیئرمین نیب پر برس پڑیں کہا جو "کرنا” ہے کر لو
نیب نے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کو گرفتار کر لیا، اس حوالہ سے نیب نے اعلامیہ جاری کر دیا ہے،
نواز شریف کے قریبی دوست میاں منشا کی کمپنی کو نوازنے پر نیب کی تحقیقات کا آغاز
نواز شریف سے جیل میں نیب نے کتنے گھنٹے تحقیقات کی؟
تحریک انصاف کا یوٹرن، نواز شریف کے قریبی ساتھی جو نیب ریڈار پر ہے بڑا عہدہ دے دیا
بچوں سے زیادتی کے مجرموں کوسرعام سزائے موت ،علامہ ساجد میر نے ایسی بات کہہ دی کہ سب حیران
قومی اسمبلی میں زینب الرٹ متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا . امید ہے سینیٹ میں بھی اس قانون کو جلد منظور کرلیا جائے گا معصوم بچوں کی حفاظت حکومت کی اوّلین زمہ داری ہونی چاہیے امید ہے اس قانون اور نظام سے آئندہ ہمارے معصوم بچوں کی حفاظت میں مدد ملے گی