زلزلے کیوں آتے ہیں : علی چاند

0
34

قشر الارض سے تواناٸی کے اچانک اخراج کی وجہ سے زلزلہ پیدا ہوتا ہے ۔ تواناٸی کے اس اخراج کی وجہ سے قشر الارض کی ساختمانی تختیوں میں حرکت پذیری پیدا ہوتی ہے ۔ دوران حرکت یہ تختیاں آپس میں ٹکراتی ہیں جس کی وجہ سے زمین کے اوپر جھٹکے محسوس ہوتے ہیں جسے زلزلہ کہتے ہیں ۔ زلزلے کی جس پیمانے پر پیماٸش کی جاتی ہے اسے ریکٹر سکیل کہتے ہیں ۔جب زمين کی پليٹیں جو تہ در تہ مٹی، پتھر اور چٹانوں پر مشتمل ہوتی ہے کسی ارضياتی دباؤ کا شکار ہوکر ٹوٹتی يا اپنی جگہ چھوڑتی ہے تو سطح زمين پر زلزلے کی لہريں پيدا ہوتی ہيں۔ يہ لہريں دائروں کی صورت ميں ہر سمت پھيل جاتی ہيں۔ یہ لہرے نظر تو نہیں آتیں لیکن اب کی وجہ سے زمین کے اوپر ہر چیز حرکت کرنے لگتی ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ میں جتنی تباہی زلزوں کی وجہ سے آٸی ہے اور کسی قدرتی آفت سے نہیں آٸی ۔ زلزلوں کی وجہ سے بہت سی اقوام صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لیے مٹ گٸیں ۔ زلزلے کے اثرات سیلاب ، وباٸی بیماریوں ، طوفان اور جنگوں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں ۔ صدیوں سے لوگوں کی زلزلے کے بارے میں مختلف راٸے رہی ہیں ۔ عیساٸی پادری کہتے تھے کہ یہ خدا کے گناہ گار بندوں کے لیے اللہ کی طرف سے سزا ہے ۔ قدیم جاپانی لوگوں کا نظریہ تھا کہ زمین کو ایک بہت بڑی چھپکلی نے اپنے اوپر اٹھایا ہوا ہے جب چھپکلی حرکت کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں ۔ ساٸبیریا کے قدیم باشندوں کا نظریہ تھا کہ زمین کو ایک برفانی کتے نے اپنے اوپر اٹھا رکھا ہے کتا جب اپنے جسم کو برف جھاڑنے کے لیے جھٹکتا ہے تو پھر زلزلے آتے ہیں ۔ قدیم امریکیوں کا کہنا تھا کہ زمین کو ایک کچھوے نے اٹھا رکھا ہے ۔ کچھوا جب حرکت کرتا ہے تو زمین حرکت کرتی ہے جسے زلزلہ کہتے ہیں ۔ ہندوٶں کے عقیدے کے مطابق زمین کو ایک گاٸے نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھا ہے جب وہ گاٸے زمین کو ایک سینگ سے دوسرے سینگ پر رکھتی ہے تو زلزے آتے ہیں ۔ قدیم یونانی فلاسفر کے مطابق زمین کے نیچے مردے آپس میں لڑتے ہیں تو تب زلزلے آتے ہیں ۔ افلاطون کے مطابق زمین کے اندر تند و تیز گرم ہواٸیں زلزلوں کا سبب بنتی ہیں

اب ہم اسلامی نظرے سے اس بات کا جاٸزہ لیتے ہیں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں ۔ قرآن پاک میں حضرت شعیب علیہ السلام کو زلزلے سے تباہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی گٸی ہے کہ وہ قوم ناپ تول میں کمی کرتی تھی ؟ اسی طرح قارون کو اس کے خزانوں سمیت زمین میں دفن کرنے کی وجہ اس کی ناشکری بیان کیا گیا ہے ۔ احادیث کی روشنی میں زلزلے آنے کی چند وجوہات درج ذیل ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب مال غنیمت کو دولت، امانت کو مال غنیمت اور زکاۃ کو تاوان سمجھا جائے، دین کی تعلیم کسی دوسرے مقصد سے حاصل کی جائے، آدمی اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے، اور اپنی ماں کی نافرمانی کرے، اپنے دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے گا، مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگیں، فاسق و فاجر آدمی قبیلہ کا سردار بن جائے، گھٹیا اور رذیل آدمی قوم کا لیڈر بن جائے گا، شر کے خوف سے آدمی کی عزت کی جائے گی، گانے والی عورتیں اور باجے عام ہو جائیں، شراب پی جائے اور اس امت کے آخر میں آنے والے اپنے سے پہلے والوں پر لعنت بھیجیں گے تو اس وقت تم سرخ آندھی، زلزلہ، زمین دھنسنے، صورت تبدیل ہونے، پتھر برسنے اور مسلسل ظاہر ہونے والی علامتوں کا انتظار کرو، جو اس پرانی لڑی کی طرح مسلسل نازل ہوں گی جس کا دھاگہ ٹوٹ گیا ہو“۔
ترمذی : کتاب الفتن

ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھما فرماتی ہیں : جب شادی شدہ عورتیں بہک جائیں ، جب لوگ زنا کو حلال سمجھنے لگیں ، شراب پیے اور گانوں کی محفلیں سجنے لگیں تو اللہ تعالیٰ کو آسمان میں غیرت آتی ہے وہ زمین کو حکم دیتا ہے زمین میں زلزلے آنے لگتے ہیں ۔”

ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ” جب لوگ پانچ قسم کی برائیاں کرنے لگتے ہیں تو ان کو پانچ طرح کے مصائب میں مبتلا کیاجاتاہے ۔ جب سود عام ہوگا تو زلزلے اور زمین میں دھنسنا عام ہوجائے گا ۔ جب اہل اقتدار ظلم کرنے لگیں گے تو بارشیں بند ہوجائیں گی ، جب زنا عام ہوجائے گا تو لوگ جلدی مریں گے ۔ جب لوگ زکوٰۃ دینے سے رک جائیں تو مویشی مرنے لگیں گے اور جب غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت نہ ہوگی تو وہ مسلمانوں پر غالب آجائیں گے ۔”

‏حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مدینہ منورہ میں زلزلہ آیا۔آپ نے زمین پر اپنا درّہ مار کر فرمایا۔۔
اقدی الم اعدل علیک قلتقرت من وقتھا “اے زمین ساکن ہو جا کیا میں نے تجھ پر انصاف نہی کیا”،زلزلہ فورا ختم ہو گیا اور زمین ٹھر گئ۔۔
(ازالتہ الخلفا جلد دوئم صفحہ ۱۷۲))

اس سب سے یہ ثابت ہوا کہ ہمیں اپنے نامہ اعمال کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جہاں کشمیری بہنوں کی عزت لٹ رہی ہو۔اور قوم خاموش کھڑی ہو ۔ جہاں ناپ تول۔میں کمی عروج پر ہو ، قوم کو لوٹ کر کھاجانے والے حکمران ہوں اور صلاح الدین جیسے زہنی معذور پولیس تشدد سے شہید ہوجاتے ہوں ۔ جہاں رشوت خوری کا بازار گرم ہو ۔ شراب ، جوٸے اور بے حیاٸی کے کاروبار کرنے والے قوم پر مسلط ہوں ، جہاں ایمان والے دہشت گرد ٹھہراٸے جاٸیں اور ملک کے غدار با حفاظت ملک سے باہر بجھوادیے جاٸیں ، جہاں کتے تو عیش میں ہوں لیکن کتے کے کاٹے کی ویکسین نہ ملنے پر عوام جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، جہاں ایک روٹی چوری کرنے والے کو تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا جاٸے اور بڑے بڑے چوروں کو لیڈر سمجھ کر ان پر جانیں قربان کی جاٸیں ، جہاں بے حیاٸی پھیلانے والوں کو سزا کی بجاٸے ایوارڈ دٸیے جاٸیں ، جہاں مسجدوں کے سپیکر تو بند کروا دٸیے جاٸیں لیکن شراب کے کاروبار کو تحفظ دیا جارہا ہو ، جہاں غریب ایک وقت کی روٹی کو ترستا ہو اور حکمران کہیں کہ لاکوں کی تنخواہ میں بھی گزارا نہیں ہوتا وہاں زلزے نہیں آٸیں گے تو اور کیا ہوگا ؟

اللہ پاک مجھے ، آپ کو ، ہمارے حکمرانوں کو عقل سلیم عطا فرماٸے ۔ توبہ کرنے کی توفیق دے اور ہمیں ہمارے اعمال درست کرنے کی توفیق عطا فرماٸے ۔ آمین

Leave a reply