ذرا ٹھہریئے۔۔۔۔۔!!!!!!!!!! جویریہ چوہدری

0
48

قارئین !!!!
پرانے وقتوں میں کسی شادی بیاہ کے موقع پر۔۔۔۔جو زیادہ ہی انجوائے منٹ کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔وہ ناچنے گانے والے بلا لیا کرتا تھا۔۔۔۔ !!!!!
یعنی یہ کام شرفاء کو زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ خود ایسے کام کرنے لگ جائیں۔۔۔۔
اور جو حد سے بڑھ کر ناچنے کودنے والیوں کو بلانے پر مصر ہوتا تو گھر کا کوئی بزرگ اس بات کو اپنی توہین تصور کرتے ہوئے ناراضگی کا عندیہ دے دیتا تھا کہ۔۔۔۔اگر تم ایسا کرو گے۔۔۔۔تو میں نے ایسی محفلوں میں بیٹھنا ہی نہیں ہے۔۔۔۔!!!!!!
یعنی تم جانو اور تمہارے کام۔۔۔۔
بلکہ بعض اوقات تو گھر سے چلے جانے کی دھمکی بھی دے دی جاتی تھی۔۔۔۔
چنانچہ اس بات کو بھی اپنی توہین تصور کرتے ہوئے کہ اگر اس موقع پر بزرگ نہ ہوں تو لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔۔۔۔؟؟؟
تو نو جوان ایسی سوچ و حرکت سے باز رہ جاتے تھے۔۔۔۔

رفتہ رفتہ ہم ترقی کی منازل طے کرنے لگ گئے۔۔۔۔اور ہر کام میں مہارت اور سب فن خود سیکھنے لگ گئے۔۔۔۔
سو آج کسی بھی شادی کے موقع پر یہ سارا کام ہم خود ہی کر لیتے ہیں ناں؟
گھر کی بیٹیاں۔۔۔۔۔کزنیں۔۔۔رشتہ دار خواتین دھرتی کو ہلاتی خود ہی یہ کام کر سکتی ہیں۔۔۔۔
بلکہ بعض اوقات تو ماں جیسے عظیم اور قابل احترام رشتے سے بھی کہا جاتا ہے کہ:
محفل تاں سجدی۔۔۔۔جے نچے منڈے دی ماں۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
اور مرد کزنز اور دولہا کے دوست اپنوں کے روپ میں آنکھوں کی تسکین کے ساتھ ساتھ وڈیو آپریٹنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔۔۔؟؟؟

ہر ہاتھ میں موجود موبائل فون نے یہ کام اور بھی آسان اور ممکن کر دیا ہے۔۔۔
اور یہ سب کندھے جھٹک کر جواب دیا جاتا ہے کہ:
Its our culture…no problem….!!!!
لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلامی ثقافت کے فروغ اور بقاء کے لیئے ہمارے آباء نے اتنی عظیم قربانیاں دی تھیں تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو اپنی شناخت اور ثقافت برقرار رکھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔۔۔۔
مگر وہ نسلیں آج بھی انڈین گانوں کی دھن پر ناچنا اپنا وقار سمجھتی ہیں۔۔۔۔؟؟؟؟

پہلے وقتوں میں مووی والا بلایا جاتا تھا۔۔۔۔اور اسے بھی شرفاء اپنی عزت کے خلاف سمجھتے تھے کہ ہماری بہنوں،بیٹیوں کی تصاویر کوئی اجنبی کیوں لیتا پھرے۔۔۔۔؟؟؟
اور سائیڈ پر۔۔۔ذرا ہٹ کر بیٹھنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔۔۔
مگر رفتہ رفتہ ہم نے آگے بڑھنا سیکھ لیا اور شادی اٹینڈ کرنے والی خواتین نے یہ فریضہ سنبھال لیا۔۔۔۔مخلوط نظام میں مرد بھی پیچھے نظر نہیں آتے۔۔۔۔ اور ایک دن میں ہزاروں تصاویر ایک دلہن کی بآسانی لے لی جاتی ہیں۔۔۔۔۔ !!!!
گھر جا کر جس جس کو دکھائیں۔۔۔۔جس جس سے شیئر کریں۔۔۔۔کچھ غلطی تصور نہیں کی جاتی۔۔۔اسے خیانت قطعاً نہیں کہا جاتا۔۔۔!!!!!!
آج ہماری اور غیر مسلموں کی شادی میں کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا۔۔۔۔فلموں اور ڈراموں کے مکمل سین آزمائے جاتے ہیں۔۔۔
ہم فتویٰ بازی اور تنقید کرنے میں بس ماہر ہو گئے ہیں۔۔۔۔
برائیوں کے سدباب کے لیئے ہمارے پاس پلان نہیں ہیں۔۔۔۔!!!!
آج بزرگ دھیمے لہجے میں کہتے نظر آتے ہیں جی کیا کریں۔۔۔۔بس بچوں کی مرضی تھی۔۔۔۔
یعنی طوفان مچائے رکھا۔۔۔۔ہماری اب کون سنتا ہے۔۔۔؟وغیرہ

ایک وقت تھا کہ والدین کی مرضی کے خلاف کچھ کرنا اولاد کی رسوائی سمجھی جاتی تھی۔۔۔
مگر رفتہ رفتہ ہم نے ترقی کر لی اور والدین کو اپنی خواہشات کے سامنے جھکا کر آگے لگا لیا۔۔۔۔؟؟؟
ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ پیارے رسول حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"بے شک ہر دین کی ایک خصلت ہوتی ہے،اور اسلام کی خصلت حیاء ہے۔۔۔۔”
(رواہ ابن ماجہ)۔

یاد رکھیئے کہ ہر انسان آزاد ہے۔۔۔
اور اپنی منشا کے مطابق جینے کا حق دار بھی۔۔۔۔
مگر امت محمدیہ کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک اچھائی سے محبت اور تلقین اور برائی سے نفرت و بچانے کی بھی سخت تاکید کی گئی ہے۔۔۔!!!

سب سے اوّل ذمہ داری تو والدین کی ہوتی ہے۔۔۔۔
کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اس انداز میں کریں کہ وہ تا حیات ان کے لیئے باعث فخر اور سرمایہ افتخار بنیں۔۔۔۔
اسلام کی حقیقی تصویر اور وقار کہلائیں۔۔۔۔
اور اس فطری و آسان۔۔۔با برکت اور باعث فلاح پیغام کی عملی تصویر بن جائیں۔۔۔۔
اگر ہم خود ہی اپنی تہذیب و ثقافت کو بیچنے والے بن گئے۔۔۔۔
تو ہماری ثقافتی اقدار کے بقاء کا ذمہ دار کون ہو گا۔۔۔۔
تعلیمی ادارے اپنی قوموں کی اصل پہچان کے ضامن ہوتے ہیں۔۔۔۔
اور ذرائع ابلاغ قوم کی تربیت اور رائے عامہ ہموار کرنے کا باعث۔۔۔۔
کسی بھی قوم کی نسل نو کی تربیت کے یہ تین ستون ہیں۔۔۔
اگر ایک ستون میں بھی لرزش پیدا ہو گی تو سمجھیئے کہ تربیت کی عمارت لرزاں رہے گی۔۔۔!!!!!!!!
آج ہماری تربیت کی کمی کے ہی المیے ہیں کہ کوئی کسی بے بس کی توہین کرتے ہوئے وڈیو بنا رہا ہوتا ہے۔۔۔۔تو کوئی تشدد اور جان سے مار دینےکے واقعات کی اپ لوڈ۔۔۔۔
ہمارے اخلاق و اقدار کہاں کھو گئے۔۔۔۔؟؟؟
ہم خود ہی خود کو تماشہ بنا دینے پر کیوں بضد ہیں۔۔۔۔؟؟؟؟آئیے!
اخلاق کے سب سے بڑے علمبردار اسلام۔۔۔اور داعی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے اپنے روح و بدن کو منور کرنے کی کوشش کریں۔۔۔
حیا کا لبادہ اوڑھ لیں۔۔۔۔
اور دوسروں کے لیئے بھی آسانیاں بانٹنے والے۔۔۔۔نقصان ہٹانے والے۔۔۔اور عزتوں کے محافظ بن جائیں۔۔۔۔
اللّٰہ تعالی کے پیغام کو مکمل سمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔۔ادھوری نہیں۔۔۔۔
اپنے گھر سے معاملات کی درستگی کا بیڑہ اٹھائیں۔۔۔۔کہ پہلی مملکت آپ کی وہی ہے۔۔۔۔
بنی اسرائیل پر اللّٰہ تعالی نے بے شمار انعامات کیۓ تھے۔۔۔۔
مگر وہ ایسی قوم تھی کہ اللہ کے احکامات میں ردوبدل کرنے اور اپنی خواہشات کے تابع کرنے سے باز نہ آتی تھی۔۔۔۔
تو اللّٰہ غضب کا شکار ہوئی۔۔۔ان کی اسی خرابی کو یوں بیان کیا گیا۔۔۔۔
ارشاد ربانی ہے:
"کیا تم لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہو،
اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔۔۔۔باوجود یہ کہ تم کتاب پڑھتے ہو۔۔۔کیا تم میں اتنی بھی سمجھ نہیں۔۔۔؟؟؟”
(البقرۃ:44)

کہیں فرمایا:
"کیا تم بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو۔۔۔؟
تو جو بھی ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذابِ شدید۔۔۔۔اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔۔۔”
(البقرۃ:85)
اور ہمیں اللّٰہ تعالی کے احکامات کے عموم کو سمجھنا ہو گا۔۔۔۔
کیونکہ اللّٰہ تعالی کے احکامات پر ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کا ہی یہ امتحان ہے۔۔۔۔
بہت آگے بڑھتے بڑھتے۔۔۔۔ہمیں اپنی اقدار۔۔۔۔اخلاقیات۔۔۔۔تعلیمات کو کسی بھی میدان میں پسِ پشت نہیں ڈالنا۔۔۔۔۔
تہذیب،جدت اور حیا و کردار کا اسلام سے بڑھ کر کوئی پیامبر ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔
جو ہر خلافِ تہذیب بات کو مہذب ہی نہیں کہتا۔۔۔۔۔۔ !!!!!
اپنے گریبان میں جھانک کر۔۔ذرا ٹھہر کر۔۔۔۔کچھ سوچیں تو سہی۔۔۔۔
کیا خبر ہمارے دلوں کے بند دریچے اس امن و بہار بھرے پیغام کے جھونکوں سے کھل جائیں۔۔۔۔اور ہم حقیقی خوشی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں۔۔۔۔
ہاں حقیقی خوشی۔۔۔۔
اپنے پروردگار کی رضا والے کاموں پر عمل کی خوشی۔۔۔۔۔
ہمارے دلوں کو اطمینان سا مل جائے۔۔۔۔
اور ارد گرد ایک سکون سا چھا جائے۔۔۔۔۔
اور اس سکون کا بدلہ۔۔۔۔”ابدی سکون”ہو گا۔۔۔۔ان شآ ء اللّٰہ۔۔۔ !!!!
¤¤¤¤¤ ¤¤¤¤¤

Leave a reply