ذہنی سکون کس چیز کا نام ہے؟؟؟ تحریر: فہیم شاکر

ذہنی سکون کس چیز کا نام ہے؟
کیا فکرِ فردا سے رہائی ذہنی سکون کا باعث ہے یا مالی آسودگی؟
کیا دنیا میں ٹھاٹھ باٹھ سکون کی علامت ہے یا کوئی ایسی چیز جو اس کی زندگی کو مسکراہٹ سے ہمکنار کر دے
اللہ تعالی کارساز ہے وہ انسان کے کاموں کے لیے خود انسان سے زیادہ متفکر رہتا ہے. انسان جب خود اپنے کاموں، مرادوں اور تمناوں کے لیے بے چینی و بے قراری کی روش اختیار کرتا ہے تو اس سے وہ ذہنی سکون چھن جاتا ہے جو زندگی کی مسکراہٹ کا باعث ہوتا ہے. اور فکرِ فردا سے رہائی اس کے لیے خواب بن جاتی ہے
انسان کو چاہیے کہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہے اور اس میں کوتاہی نہ کرے اگر وہ عطا کردہ نعمتوں پر صبر بھی کر لے تو سونے پر سہاگہ والی بات ہو گی
انسان بنیادی طور پر ناشکرا ثابت ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ جو چیز مل جائے اس کی قدر نہیں کرتا اور جو تمنا پوری نہ ہو اس پر شکوے شکایات ہر وقت نوکِ زباں پر رکھتا ہے
اور اگر ایسے انسان سے عطا کردہ نعمتوں میں سے کچھ یا ساری واپس لے لی جائیں تو اس کا چیخنا دیدنی ہوتا ہے
حالانکہ اس نے عطا ہوئی نعمتوں کا شکر تو ک ھی ادا کیا نہیں تھا
نجانے کیوں انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں کفرانِ نعمت کا مرتکب ہوتا ہے
قدرت انسان کو برابر اشارات دیتی رہتی ہے لیکن انسان نعمتوں کی تکفیر میں ایسا پڑتا ہے کہ قدرت کے اشارات کو سمجھتا ہی نہیں اور ذہنی سکون تباہ کر بیٹھتا ہے
اللہ سے بہتر کون حکیم و علیم ہے یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ عطا کردہ نعمتوں سے کسی کو واپس لے کر اس سے بہتر عطا کرنا چاہتا ہو لیکن اس پر یہ انسان ایسا دلگرفتہ ہوتا ہے کہ اللہ جیسے خالق و مالک کی شکایات اپنے ہی جیسے انسانوں سے کرنے لگتا ہے
شاید یہی وجہ ہے کہ وہ فکرِ فردا سے رہائی کے لیے ترستا رہتا ہے
غم ہمیشہ ماضی سے منسلک ہوتا ہے اور اور خدشے کے تعلق مستقبل سے ہوتا ہے
کیونکہ جو وقت ابھی آیا نہیں اس پر غم کرنا بنتا نہیں لہذا غم کا تعلق ماضی سے ہے
لیکن ماضی کے غم کو لے کر ہم مستقبل سنوار نہیں سکتے اس کے لیے ضروری ہے کہ بندہ ماضی سے صرف سبق حاصل کرتے ہوئے اسے یکسر فراموش کر دے اور مستقبل کی فکر کرے لیکن یہ فکر اسے ہلاک نہ کر ڈالے فکر کا مطلب جہاں ایک طرف بہتر پلاننگ کرنا ہے وہیں دوسری طرف اللہ سے بہتر امید لگانا اور اسی پر یقین رکھنا بھی ہے کہ اس کی مرضی ومنشاء کے بغیر مستقل بہتر نہیں ہو سکتا
ماضی کے غم اور مستق ل کی بے جا فکر سے ہم حال سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے
ننکانہ کے ایک مقامی سکول کے ذمہ دار سے ایک ملاقات میں طلبہ کی پڑھائی کا ذکر چلا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے سکول کے طلبہ دوپہر 2 بجے چھٹی کے بعد گھر چلے جاتے ہیں اور زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں پھر جس نے اکیڈمی وغیرہ جانا ہوتا ہے وہ چلا جاتا ہے لیکن ہمارے اور ایک دوسرے سکول کے جماعت نہم کے طلبہ کے نمبر ایک آدھ نمبر کے فرق سے 505 میں سے 500 ہی آئے ہیں لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے طلبہ نے پڑھائی بھی کی اور زندگی سے لطف اندوز بھی ہوئے اور نمبر 500 پائے لیکن مذکورہ سکول کے طلبہ نے سارا دن اور رات کو بھی پڑھائی کر کے اتنے ہی نمبرز حاصل کیے تو گویا اس ادارے کے طلبہ بھی طریقہ بدل کر پڑھائی کرنے سے زیادہ نمبر لے سکتے ہیں اور زندگی سے لطف بھی، لیکن ایسا ہو نہیں رہا
یہاں سمجھ یہ آتا ہے کہ مستقبل کی فکر میں وہ طلبہ اپنے آج کو تباہ کر رہے ہیں، یہی حال انسان کا بحیثیت انسان بھی ہے
زندگی مسکرائے گی یا تلملائے گی اس کا انحصار انسان کے رویے پر ہے
ذہنی سکون مل جائے گا یا ذہنی کرب جان لے لے گا اس کا انحصار انسان کی سوچ و عمل پر ہے
یقین جانیے کہ صبر و شکر سے ہی ذہنی سکون نصیب ہوتا ہے اور زندگی کِھلکھلا اُٹھتی ہے
تو آئیے! اگر ہم فکرِ فردا سے رہائی کے طلب گار ہیں اور ذہنی سکون کے خواہشمند تو اللہ کے کام اللہ پر چھوڑ دیں کہ وہ ہمارے بھلے کے کام ہی کرے گا اور ہم ہر حال میں صبر و شکر سے کام لیتے رہیں
وما توفیقی الا باللہ

Comments are closed.