عظیم سکالر ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن الاعظمی مدینہ منورہ میں خالق حقیقی سے جا ملے

0
24

عظیم سکالر ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن الاعظمی مدینہ منورہ میں خالق حقیقی سے جا ملے

لاہور (باغی ٹی وی )پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمن اعظمی مدرس مسجد نبوی و جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ آج مدینہ منورہ میں انتقال کرگئے. 1943 میں اعظم گڑھ (ہندوستان) کے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والدین نے نام بانکے رام رکھا۔ والد ایک خوشحال کاروباری شخص تھا۔ اعظم گڑھ سے کلکتہ تک اس کا کاروبار پھیلا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب آسائشوں سے بھرپور زندگی گزارتے ہوئے جوان ہوئے . وہ شبلی کالج اعظم گڑھ میں زیر تعلیم تھے۔ کتابوں کے مطالعے سے انہیں فطری رغبت تھی۔ ایک دن مولانا سید ابو الاعلی مودودی کی کتاب ”دین حق“ کا ہندی ترجمہ اس کے ہاتھ لگا۔ نہایت ذوق و شوق سے اس کتاب کا مطالعہ کیا۔ بار بار پڑھنے کے بعد اسے اپنے اندر کچھ تبدیلی اور اضطراب محسوس ہوا۔ اس کے بعد اسے خواجہ حسن نظامی کا ہندی ترجمہ قرآن پڑھنے کا موقع ملا۔ڈاکٹر الاعظمی کا تعلق ایک برہمن ہندو گھرانے سے تھا۔ کٹر ہندو ماحول میں اس کی تربیت ہوئی تھی۔ ہندو مذہب سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ باقی مذاہب کو وہ برسر حق نہیں سمجھتے تھے ,اسلام کا مطالعہ شروع کیا تو قرآن کی یہ آیت اس کی نگاہ سے گزری۔
ترجمہ: اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اس نے ایک بار پھر ہندو مذہب کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اپنے کالج کے لیکچرار جو گیتا اور ویدوں کے ایک بڑے عالم تھے، سے رجوع کیا۔ ان کی باتوں سے مگر اس کا دل مطمئن نہیں ہو سکا۔ شبلی کالج کے ایک استاد ہفتہ وار قرآن کا درس دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر الاعظمی صاحب کی جستجو کو دیکھتے ہوئے استاد نے انہیں حلقہ درس میں شامل ہونے کی خصوصی اجازت دے دی۔
سید مودودی کی کتابوں کے مسلسل مطالعے اور درس قرآن میں باقاعدگی سے شمولیت نے ڈاکٹر الاعظمی کے دل کو قبول اسلام کے لئے قائل اور مائل کر دیا۔
پریشانی مگر یہ تھی کہ مسلمان ہونے کے بعد ہندو خاندان کے ساتھ کس طرح گزارہ ہو سکے گا۔ اپنی بہنوں کے مستقبل کے متعلق بھی وہ فکرمند تھے, یہی سوچیں اسلام قبول کرنے کی راہ میں حائل تھیں۔ ایک دن درس قرآن کی کلاس میں استاد نے سورت عنکبوت کی یہ آیت پڑھی۔
ترجمہ: "جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا کارساز بنا رکھا ہے، ان کی مثال مکڑی کی سی ہے، جو گھر بناتی ہے اور سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہوتا ہے۔ کاش لوگ ( اس حقیقت سے ) باخبر ہوتے۔”
اس آیت اور اس کی تشریح نے بانکے رام (ڈاکٹر الاعظمی )کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے تمام سہاروں کو چھوڑ کر صرف اللہ کا سہارا پکڑنے کا فیصلہ کیا اور فوری طور پر اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد اس کا بیشتر وقت سید مودودی کی کتابیں پڑھنے میں گزرتا۔ نماز کے وقت خاموشی سے گھر سے نکل جاتا اور کسی الگ تھلگ جگہ پر ادائیگی کرتے.ڈاکٹر الاعظمی صاحب نے تعلیم شبلی کالج اعظم گڑھ سے حاصل کی. دینی تعلیم جامعہ دار السلام، عمرآباد سے حاصل کی بعد ازاں مدینہ منورہ اعلی تعلیم کے لئے تشریف لے گئے وہیں سے گریجویشن لجامعۃ الاسلامیۃ المدینۃ المنورۃ میں مکمل کی. ماسٹر جامعۃ الملک عبد العزیز مکۃ المکرمۃ، جو اَب جامعۃ أم القریٰ کے نام سے جانی جاتی ہے۔سے کیا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری جامعۃ الازہر مصر سے حاصل کی.رابطہ عالمِ اسلامی مکہ مکرمہ میں مختلف مناصب پر فائز رہے اور آخر میں انچارج ہیڈ آفس جنرل سکریٹری (مدیر مکتب الأمین العام لرابطۃ العالم الاسلامی) رہے۔۱۳۹۹ھ میں جامعہ اسلامیہ میں بطورِ پروفیسر متعین ہوئے۔ – مدیر البحث العلمی – مدیر مکتب الجالیات التابعۃ للجامعۃ الإسلامیۃ – رکن مجلۃ الجامعۃ الاسلامیۃ – عمید کلیۃ الحدیث بھی رہے. سجدِ نبوی میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے دروس دیتے رہے, ہندی اور عربی میں مقالات کی کتابت اور کتب تالیف کیں. پھر جامعہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد یکسوئی سے علمی وتحقیقی کاموں میں مصروف ہو گئے اور ہر طرح کی سرگرمیوں کو موقوف کر دیا.آپ کی تصانیف میں أبو هریرة في ضوء مرویاته,أقضیة رسول الله ﷺ لابن الطلاع (ت 497 هـ),دراسات في الجرح والتعدیل,المدخل إلی السنن الکبری للبیهقي (ت 458 هـ),دراسات في الیهودیة والنصرانیة,الجامع الکامل في الحدیث الصحیح الشامل,قرآن کی شیتل چھایا,قرآن مجید کی انسائیکلوپیڈیا دیگر شامل ہیں

Leave a reply