حادثے کا ذمہ دار کون ؟ تحریر: احسن ننکانوی

0
30

عید سے دودن پہلے گھروں میں سوگ ہی سوگ: بدقسمت بس سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات۔

آج صبح ڈیرہ غازی خان میں مسافربس اور ٹریلر کے درمیان ہونے والے خونریز تصادم ہوا، بدقسمت بس سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔
کہ اس میں کیا کیا تبدیلیاں ہوئیں اور بس ڈرائیور کا اس میں کتنا کردار تھا ۔
یا بس مالکان کا اس میں کتنا کردار تھا ۔

ذرائع کے مطابق حادثے کا شکار بس تکنیکی اعتبار سے خراب تھی بس میں لوگوں کو بٹھانے کی گنجائش اڑتالیس تھی لیکن انہوں نے اٹہتر لوگوں کو بٹھایا ہوا تھا ۔
اس کا ذمہ دار کون کیا ہمارے ادارے خوب خرگوش کا مزہ لے رہے تھے ۔

ٹریفک پولیس کہاں تھی کہ بس نے اتنا لمبا سفر کیا اور اس کو راستے میں کسی نے نہ روکا ۔

آرپی او ڈیرہ غازی خان فیصل رانا نے میڈیا کو بتایا کہ واقعے کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ بس کا ایکسلیٹر ناکارہ تھا، ڈرائیور ریس کی تار ہاتھ سے پکڑ کر گاڑی چلارہا تھا سنگین انسانی غفلت کے باعث سیالکوٹ سے ڈی جی خان تک بس کو کہیں نہیں روکا گیا ، اور نہ ہی اس کا چالان ہوا۔

دوسری جانب حادثے میں جاں بحق مسافروں کی تعداد چونتیس تک جاپہنچی ہے، ہاسپٹل میں زیر علاج مزید سات مسافر دوران علاج دم توڑ گئے جبکہ چالیس سے زائد زخمی تاحال زیر علاج ہیں، جن میں بیشتر کی حالت نازک ہے۔

اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ حادثے میں جاں بحق بیشتر افراد مزدور تھےجو سیالکوٹ میں کام کرتے تھے اور عید منانے گھروں کو واپس آرہے تھے، سانحے میں جاں بحق افراد میں چار سگے بھائی بھی شامل ہیں۔
یار کب ہمارا ملک ٹھیک ہو گا آر پی او کہ رہے ہیں
بس میں تکنیکی خرابی تھی لیکن نہ روکا گیا نہ چلان ہوا ۔
کیوں؟
آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں کیوں نہیں روکا گیا اور کیوں
یہ بسیں اورلوڈ ہوتی ہیں۔
اس میں ہماری ٹریفک پولیس کی کرپشن ہے انہوں نے منتھلی لگائی ہوتی ہے ۔
کہ ایک ماہ بعد اتنے پیسے دے دینا اور پورا مہینہ بے غم ہو کر چلاؤ۔
چاہے اورلوڈ کرو چاہے بغیر ہارن چلاؤ۔
ہاں میں یہ نہیں کہتا کہ سارے پولیس والے ایک جیسے ہوتے ہیں۔
لیکن ہمارے پیارے وطن پاکستان کو کچھ لوگ دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
ہمارے اپنے علاقے میں ٹریفک پولیس والوں نے منتھلی لگائی ہوئی ہے ۔
اس کے علاوہ عملے کا بھی قصور ہوتا ہے ۔
جو پہلے تو سواریوں کے چکر میں رکے رہتے ہیں۔
اور بعد میں ٹائم بچانے کے چکر میں اندھا دھند گاڑی چلاتے ہیں۔
میں ان بڑی بسوں کی وجہ سے دو بار حادثے کا شکار ہوا ہوں ۔
ایک بار بازو ٹوٹ گیا اور کافی چوٹیں آئیں جس کی وجہ سے میرا یونیورسٹی میں داخلے کے لئے انٹرویو تھا اور میں نہ پہنچ سکا ۔
جس یونیورسٹی میں پڑھنے کی خواہش بچپن سے تھی وہ چکنا چور ہوئی ۔
دوسری بار بھی بہت دردناک واقعہ ہوا خیر میں نے تو اپنی بائیک روڈ سے زمین کی طرف اتار دی لیکن میری آنکھوں کے سامنے ایک عورت کو اس بس نے کچل دیا ۔
اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ساری عمر اپنی ماں کو ترستے رہیں گے۔😪
یار کیا ہوتا ہے اگر آپ تھوڑی آہستہ چلا لو اور قوانین کے اندر رہتے ہوئے گاڑی میں جتنے مسافروں کی گنجائش ہو اتنے بٹھاو۔
ہمارے اداروں کو بھی ان کالی بھیڑوں کے خلاف ایکشن لینا ہوگا ۔
ذرائع کے مطابق حادثے میں جاں بحق ہونے والے چار سگے بھائی تھے ۔
ان کے والدین کا کیا حال ہوگا۔
افسوس صد افسوس۔

Leave a reply