زندگی کا مقصد کیا ہے؟ تحریر : محمد عدنان شاہد

دنیا کی ہر چیز کسی نہ کسی مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اللہ تعالی نے دنیا میں کوئی بھی چیز بے مقصد اور بے معنی پیدا نہیں فرمائی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خاص مقصد ہے اور قدرت ان سے انہیں مقاصد کو پورا کرتی ہے۔ زمین کی نپلوں سے لے کر آسمان کی صورت تک کسی نہ کسی مقصد کے ساتھ منسلک ہیں۔ تخلیق کائنات کے مقصد کا سب سے روشن پہلو یہی ہے کہ اللہ تعالی نے کسی چیز کو بے مقصد نہیں بنایا۔ پھر مختلف مقاصد کو نوع بہ نوع چیزوں کا پابند کردیا کہ اس طرح وہ مقاصد پھیلتے چلے گئے جیسا کہ اللہ تعالی نے مقصد اس کائنات کو خود فرمایا کہ:

میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا جب میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو میں نے کائنات کی تخلیق کر دی ” ( الحدیث)

اس سے یہ بات پتا چل گئی کہ تخلیق کائنات کا سب سے بڑا اہم اور اصل مقصد اللہ تعالی کی ذات و صفات کی معرفت اور اس پر کامل ایمان رکھنا ہے۔ اور جب اللہ تعالی کا عرفان حاصل ہو جائے تو یہ مقصد پورا ہو گیا کہ آپ کائنات کی وہ شے اپنے وجود میں کامل ہو گی۔ پھر مخلوقات میں جو درجات ہیں ان میں بھی مقصد نمایاں ہے۔ پہلے اس امر پر غور کریں کہ اللہ تعالی نے مخلوق میں زی حس کو تین طرح پر پیدا فرمایا۔

1)ایک وہ جن کو عقل دیا اور نفس سے محفوظ رکھا۔ جیسے فرشتے
2) ایک وہ جن کو نفس دیا اور عقل سے بے بہرہ کیا۔ جیسے حیوانات
3) ایک وہ جن کو عقل بھی دیں اور نفس بھی دیا۔ جیسے جن و انس

ان میں ہر ایک کا مقصد جداگانہ ہے۔ فرشتوں کو بے نفس بنا کر انہیں صرف اپنی عبادت پر مامور فرما دیا اور دیگر ضروریات سے محفوظ کر دیا۔ اور تمام بشری تقاضے ان سے الگ کر دیئے۔ جانوروں کو پیدا کیا تو انہیں عقل سے خالی کرکے صرف نفس کا خوگر بنایا اب ان پر کوئی شرعی احکام یا امرونہی کا حکم نافذ نہیں۔ مگر ان سوجن کو یہی خصلت بھی دیں اور فرشتوں کا شعور بھی دیا۔ اس لئے اس کے ڈھاٹے ملکوتی خصائل سے ملتے ہیں۔ اور دوسری طرف بہمانا صفات سے۔ اس کو اس منزل پر کھڑا کیا جو انتہائی زیادہ آزمائشی ہے۔ انہیں تکلیف شرعی بھی دی اور لذت نفس بھی عطا کیا۔ اب جن و انس دونوں خصلتوں کے حامل ٹھہرے۔ اگر ملکوتی صفات غالب آجائیں تو اس وقت انسان فرشتوں کا ہم نشیں ہیں اور اگر بہمانہ خصائل غالب آجائیں تو اس وقت وہ جانور ہے۔

رب کریم نے جن و انس کی مقصدیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
” ہم نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا” ( زاریات، آیت 54)

معلوم ہوا کہ مقصد انسان صرف عبادت الہی ہے۔ اسی کو مذکورہ بالا حدیث قدسی میں اپنی ذات کی معرفت سے تعبیر فرمایا۔ اب یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان کا مقصد حیات بڑا مبارک عظیم اور اہم ہے۔ اب چونکہ یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان کا مقصد بہت اہم اور مبارک ہے تو اس لیے ہر انسان کو چاہیئے کہ وہ دنیاوی کاموں سے برتر سب سے پہلے اللہ کی معرفت اور عبادت کو سب سے پہلے رکھے۔ اس کی زندگی کا سب سے اہم مقصد اور بنیادی مقصد اللہ کی عبادت ہونی چاہیے۔ کیونکہ باقی دنیاوی کام تو سب چلتے رہتے ہیں۔ اگر انسان اللہ کا قرب پا گیا تو سمجھو وہ مقصد حیات پا گیا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

@RealPahore

Comments are closed.