‏ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی . تحریر: محمد مبین اشرف

0
37

علامہ اقبال نہ یہ شعربہت پہلے اس قوم کے حالات و جذبات کو دیکھتے ہوئے شاید اسی لیے کہا تھا کہ اس قوم میں جذبات و احساسات اور شجاعت کی کمی نہیں ہے بلکہ اس قوم کو بس بیدار کرنے اور اسکے منصب کو یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات ہرکسی کی نظر کے سامنے ہیں۔ دنیا کے خیالات بھی ہم سب کے سامنے ہیں۔ کس طرح اسلاموفوبیا کے نام پرمسلمانوں کو کچلا جارہا ہے، مارا جارہا ہے انڈیا میں نفرت انتہا پرہے۔ مسلمانوں کو زلیل کیا جاتا ہے اورمسجدوں کوشہید کیا جاتا ہے غرض کے کسی نہ کسی طریقے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

دنیا کے حالات ہمارے سامنے ہیں مگر ہم مسلمانوں کے حالات پرغورکریں تو وہ مسلمان جوکہ تعلیم کے میدان میں سب سے آگے تھے اور آج مسلمان کہاں پرموجود ہیں سوچنے کی بات ہے لیکن گھبرانے کی بات نہیں ہے علامہ اقبال کا یہ شعرموجودہ حالات کی عکاسی کرتا ہے مسلمان اگرمل جائے توایک مضبوط عمارت کی مانند ہے۔

بے شک مسلمان غفلت میں سو رہے ہیں یہ دنیا بھی جانتی ہے کہ جب مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے تو مسلمانوں نے بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں۔ علامہ اقبال کا یہ شعرذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی کی اس بات کی تشریخ کرتا ہے کہ اس مٹی کو نم کی ضرورت ہے اس قوم کو بیداری کی ضرورت ہے اور جب یہ قوم بیدار ہوگئی تو یہ مسلم امت مضبوط ترین قوم بن جائے گی۔

1947ء میں پاکستان کا تصور قبول کیے جانے کے بعد قائداعظم سے کہا گیا: "Do you really believe it will become a nation. It will take fifty years.” جواب میں ارشاد کیا:”No a hundred years” قوموں کی تشکیل و تعمیرکا عمل یہی ہے۔ فروغِ علم سے اس عمل کو متواتر اورمہمیز کیا جاسکتا ہے۔ اللہ مہربان ہو تو قائد اعظم ایسے لیڈروں کی نمود سے، اپنی مثال سے جو ہجوم کی تربیت کریں۔ آخری بات یہ ہے کہ مایوسی زہرہے۔ نظراٹھا کردیکھو تو اس قوم میں ایثاراورحسنِ عمل کی مثالیں بھی بہت ملیں گی۔ اقبالؔ نے کہا تھا۔ دل توڑگئی ان کا دو صدیوں کی غلامی دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا شاعرکی باقی پیش گوئیاں پوری ہوئیں تو یہ بھی ہو کررہے گی۔ کریں گے اہلِ نظرتازہ بستیاں آباد مری نظر نہیں سوئے کوفہ و بغداد۔

@Its_MuBii

Leave a reply