ظلمت کے راستے .تحریر : ریحانہ جدون

ظلمت اور نور کے دو راستے ہیں جب ھم اللہ تعالٰی کی باتیں مانتے ھیں تو نور کا راستہ اختیار ھو جاتا ھے اور جب ھم شیطان کا راستہ اختیار کرتے ھیں تو ظلمت کا راستہ بن جاتا ھے اللہ تعالیٰ نے جتنی باتیں کہی ھیں اور جتنا فرمان الٰہی ھے اس کے کرنے سے ھم نور کے راستے میں آجا تے ہیں اور اگر شیطان کی باتوں میں آجاتے ھیں تو ظلمت میں آجاتے ہیں
اور جس طرح جھوٹ سب برائیوں کی جڑ ہے اسی طرح جب کسی قوم میں انصاف کا نظام سہی نہ ہو وہ قومیں تباہ ہوجاتیں ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے یہاں ہر چیز خواہ وہ زندگی ہو, موت ہو, عزت ہو , غیرت ہو یا انصاف ہو سب بک جاتا ہے.
سچ کے نام پہ جھوٹ بِکتا ہے قابلیت کے نام پہ جہالت بکتی ہے, پیسے کے نام پر یہاں سب کچھ بِکتا ہے.
ایک غریب سے اگر چھوٹا سا جرم ہوجائے تو اُسکی ساری زندگی یا تو پیشیاں بھگتنے میں یا پھر جیل میں گزر جاتی ہے , ہاں اگر آ پکے پاس پیسہ ہے تو اتوار کو بھی عدالت آ پکا کیس سننے کے لئے لگائی جاسکتی ہے.
افسوس کئی بےگناہ جیل میں ہی وفات پا گئے اور اُنکی وفات کے بعد عدالت نے اُنکو بےگناہ قرار دیا جی ہاں یہ ہے غریب کے لئے انصاف کی رفتار

کیا انصاف کی فراہمی ہر پاکستانی کا بنیادی حق نہیں ہے, اگر انصاف کی فراہمی ہر پاکستانی کا حق ہے تو چھوٹے موٹے مقدمات کی سماعت میں 5 سے 7 سال کیوں لگ جاتے ہیں ؟؟
کیوں غریب انسان عدالتی نظام کو بددعائیں دیتا نظر آ تا ہے؟

جواب اسکا آ سان ہے غریب کی درخواست ہزاروں فائلوں کے نیچے دب جاتی ہے. اس مفلوج نظام سے ملک وقوم کو انصاف کی امیدیں وابستہ ہیں لفظ آ یا ہے قوم تو ایک سوا ل اور پوچھنا چاہتی ہوں وہ یہ کہ کیا واقعی ہم ایک قوم ہیں ؟؟
افسوس اس معاشرے میں اتنا بگاڑ پیدا ہوگیا ہے کہ اس میں رہنے کے لئے اپنے ضمیر کو مارنا ہوگا جو سچ بولتے ہیں ان کو چپ کروانا ہوگا…..
انصاف کے لئے عدل کے ترازو میں رشوت اور اپنے حق کے لئے سفارشی کلچر اپنانا ہوگا کیونکہ یہاں انسانی جان تک کی کوئی قدر و قیمت نہیں, یہاں انسانی خون اتنا سستا ہوچکا ہے کہ سڑک پہ کوئی انسان ایڑیاں رگڑ کر مر رہا ہو تو لوگ اُسکو دیکھ کے رکیں گے ضرور ( ویڈیو بنانےکے لئے)
مگر اُسکی مدد نہیں کریں گے.
حقیقت میں ہم ایک قوم ہے ہی نہیں بلکہ لوگوں کا ہجوم ہیں جو اپنے اپنے مفادات کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اور زلت اسکا مقدر بنتی جارہی ہے .
دیکھا جائے تو یہاں نفرت بیچنے والے بھی جا بجا دکھائی دیتے ہیں جو محبت کی بجائے فرقہ پرستی کی تجارت کرتے ہیں
یہاں سستے داموں اپنی مرضی کےفتوے مُفتی سے
آ سانی سے مل جاتے ہیں …..
ہمیں اس ظلمت کے راستے سے واپس اُجالوں کی طرف لوٹنا ہوگا, خوشحالی ہماری منزل ہے ترقی کی راہیں ہماری منتظر ہیں, ہمیں اندھیروں سے پیچھا چھڑانا ہوگا اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہر ایک اپنے حصے کی زمہ داری پوری ایمانداری سے نبھا ئے گا

Comments are closed.