Category: متفرق

  • لاقانونیت…تحریر: عثمان غنی

    لاقانونیت…تحریر: عثمان غنی

    پاکستان میں جرم کی شرح دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔دن دیہاڑے اغواہ،راستے میں گاڑی یا موبائل فون جیسے قیمتی سازو سامان چھین لینا،بھتہ خوری،راتوں کو گھروں یا دوکانوں میں نقب لگانا،ءیہ سب عام ہے۔ان وارداتوں کے ڈر سے اکثر لوگ مغرب ہوتے ہی گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔عوام خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔اور ان میں ایک خوف کی کیفیت پائی جاتی ہے۔جس وہ کھل کر سانس نہیں لے پاتے۔۔۔
    ہم اکثر بات کرتے ہیں ترقی یافتہ ممالک کے امن کی۔اور پھر اس کے بعد ہم ان کے امن کی وجہ ڈھونڈھتے ہیں۔اور سب سے آخر میں ہم ان سب ممالک کا اپنےملک کےموازنہ کرتے ہین۔موازنہ کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ادارے کس طرح کام کرتے ہیں اور ہمارے ہاں ادارے کس طرح کام کرتے ہیں۔
    اس صورت حال میں پولیس کا کردار سب سے زیادہ ہے۔اور اسی لحاظ سے سب سے زیادہ تنقید بھی اسی ادارے پر کی جاتی ہے۔اب اگر اس ادارے کا موازنہ ہم ترقی یافتہ ممالک کی پولیس سے کریں تو سب سے بڑا فرق ہمیں عددی لحاظ سے نظر آتا ہےنظر آتا ہے ۔ ہماری پولیس کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے پاس افرادی قوت کی کمی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں جہاں ہر دو منٹ بعد آپ کو پولیس موبائل دیکھائِ دے گی وہیں پاکستان میں دو گھنٹے بعد بھی نہیں دیکھائی دے گی۔دور دراز کے علاقوں میں پولیس اپنی چوکیاں بناتی ہے مگر نفری کی کمی کی وجہ سے انہیں آباد نہیں کر سکتی۔تنخواہوں اور مرعات کی کمی وغیرہ ۔۔ثانوی مسائل ہیں جو تقریبا تمام سرکاری اداروں کو در پیش ہیں۔
    لیکن اگر ہم اپنی تاریخ میں دیکھیں تو عددی کمی کبھی بھی مسلمانو کے آڑھے نہیں آسکی۔زیادہ دور نہیں جاتے سن 1972سے پہلے کے سعودی عرب کو ہی دیکھ لیں۔ایک انگریز رائٹر جان پرکائنز اپنی کتاب "دا اکنامک ہٹ مین ” میں لکھتے ہین کہ اس زمانے میں سعودی میں حالات ایسے تھے کے اگر آپ ایک دن اپنا کوئی سامان کہیں چھوڑ جاتے ہیں تو دوسرے دن وہ آپ کو وہیں پڑا ملے گا۔
    اور آج کل سعودی بھی انگریزوں کے نقش قدم پر چلتا ہوا عددی قوت سے قابو پانے میں کوشاں نظر آتا ہے ۔مگر یہ بہر حال ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔
    ایک لحاظ سے پولیس کی تعداد بڑھانا بھی ٹھیک ہے مگر ۔۔۔جو چیز ہمیں اند سے کھائےجا رہی ہے وہ اس سے زرا مختلف ہے۔
    مثال کے طور پر کہیں پولیس کا ناکا لگا ہے اور کسی پولیس والے کا استاد وہاں سے گزرتا ہے تو اس کو بنا چیکنگ کے جانے دیا جاتا ہے ۔ وجہ ۔۔۔۔ استاد کی عزت ہے۔ خاندان کو تو خیر رہنے ہی دیں۔۔۔اگر کوئی ہمسایا بھی گزرتا ہے تو اس کو بھی دوسروں پر فوقیت دی جاتی ہے وجہ۔۔۔ہمسائے کے حقوق۔۔

    اور اگر کوئی بیچارہ پولیس والہ ایسا نہ کریں تو ہم "امن پسند”عوام گلہ کرنے ان بیچاروں کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔۔گھر نا بھی جاسکیں تو کہیں بھی ملے ہمارہ شکوہ تیار ہوتا ہے۔۔۔اور وہ اگلی بر لازما ہم سے رعایت برتتا ہے۔اس سب سے عوام میں اختلافات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔اور پولیس جیسے حساس ادارے کے بارے میں منفی خالات پروان چڑھتے ہیں۔
    پولیس کی ناکامی کی جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ ہے پولیس پر سیاست دانوں کا کنٹرول ۔۔۔۔اگر کسی چوکی میں کوئی نیا اے ایس آئی آتا ہے تو اس علاقے کے کونسلر کے پاس اس کے آنے سےبھی پہلے اس کی ساری معلومات پہنچ چکی ہوتی ہے ۔اور اس کے پہلے آرڈر سے بھی پہلے اس کو "آج رات کھانا ہمارے ساتھ کھانے "کا آرڈر مل چکا ہوتا ہے۔اس کھانے میں اس کو نمک حلالی کے سارے گر سیکھاے جاتے ہیں۔اور اس کے بعد پولیس کوئی بھی ایکشن لے "چھوڑ دو پاجی ساڈا بندا ے”کہہ کر سب رفہ دفعہ کرا دیا جاتا ہے۔اور وہ بیچارہ نمک حلالی کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔

    اور دیکھا جائے تو ہماری آدھی پولیس عدالتوں کے باہر اور آدھی سیاستدانوں کے گھرں کے باہر ملتی ہے۔اور اگر کوئی پولیس والا کہیں کچھ غلط کرتا نظر آحائے تو پوری علم فاضل قوم اپنے نادر و نایاب خیالات کا اضہار کرنے اور ان کو گالیاں دینے مین پیش ہوتی ہے۔اصل میں ہم شہدا کی لاشوں پر روتے ہیں غازیوں کو جوتوں کے ہار پہناتے ہیں۔ایک نوجوان جب پولیس مین جاتا پے تو وہ یہ یرارادہ لے کر نہین جاتا کے رشوت لون گا مگر ہم اس کو عادی کرتے ہین اپنے چھوٹے غیر قانانی کام نکلوانے کے لیَے کچھ کام جلدی کروانے کے لیئے۔۔۔۔
    اس تمام صورت حال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پولیس اپنا کام صیح نہیں کر سکتی۔اور ملک میں جرم بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ہمیں پولیس پر تنقید سے پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ہم اپنے پیاروں کو امتحان میں ڈال دیتے ہیں جب ہم ان سے تھوڑی سی "غیر اخلاقی”فیور لیتے ہیں۔ہم خود اپنے فرض پر جلدی پہنچنےکے لئے ان کے فرض کو سائد پر رکھ دیتے ہیں۔ہمیں باہر سے امن ادھار نہیں ملے گا ۔کوئی ہمیں امن گفٹ نہیں کرے گا ۔
    ہمیں اپنے ملک کے امن کے لئے خود کوششیں کرنی ہوں گی ۔اور سب سے بڑی کوشش ہم اپنے پیاروں کے لئے امتحان نا بن کر کر سکتے ہیں۔۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ کیا واقعی ہم کر سکتے ہیں؟؟؟؟؟؟

  • یہ بھی تو ہمارے ہی بیٹے ہیں . تحریر: بلال لطیف

    یہ بھی تو ہمارے ہی بیٹے ہیں . تحریر: بلال لطیف

    کیا ان کا لہوں اتنا سستا ہے؟
    پاکستان کا دشمن ہماری صفوں میں گھس کرہمارے لخت جگر ہم سے چھین رہا ہے اورپھرانہی کومجرم بھی ٹھہرایا جاتا ہے دشمن کے سہولت کارہمارے اپنوں میں سے ہی ہیں اورہروقت ہمیں نقصان پہچانے کے لیے تیاربیٹھے ہیں پاکستان کا استحکام دشمن کوکسی صورت گوارہ نہیں۔ دشمن اپنے سہولت کاروں کے ذریعے دہشت گردی، فرقہ واریت، سیاسی حل چل مچانے کے لیے ہروقت تیار رہتا ہے۔

    ان بیٹوں کا قصور یہ ہے۔ انہوں ہمارے بچوں کے لیے اپنے بچے یتیم کر دیے۔ ان کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے کل کہ لیے اپنا آج قربان کر دیا۔ کتنے خوبصورت جوان اپنی سرزمین کے لیے ہمارے بچوں کے لیے ہمارے لیے جام شہادت نوش کرگئے۔ کتنے جوان ایسے ہیں جو اپنے شیرخواربچے چھوڑکرہمارے لیے شہید ہوگئے۔ کتنے جوان ایسے ہیں جو بڑھاپے میں اپنے والدین کا سہارا بننے کی بجائے ان کے بڑھے کندھوں پراپنی شہادت کا بوجھ بھی لاد کرچلے گئے۔

    کبھی سوچنا جن لڑکھڑاتی ٹانگوں کوجوان بیٹے کے سہارے کی ضرورت تھی جب وہ بوڑھے کندھوں پراپنے جوان بیٹے کی لاش اٹھاتا ہوگا تو اس کے دل پرکیا گزرتی ہوگی؟
    کبھی سوچنا اس ماں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جس نے بیٹے کا سہرا سجا کررکھا تھا؟
    کبھی اس بہن کا سوچنا اپنے بھائی کے انتظارمیں تھی۔

    فوج کو گالی دینے والو شام، لیبیا،عراق اورافغانستان کا حال دیکھ لو۔
    فوج کودشمن سمجھنےوالوکبھی ایک دن باڈرپریا کسی مشن میں فوج کی زندگی جی کردیکھو تمہارے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔

    اللہ سے دعا ہے ہماری فوج اورھمارا ملک ہمیشہ سلامت رہے.

    پاک فوج زندہ آباد
    پاکستان پائندہ باد

    @Bilal_Latif1

  • امریکہ: ڈینٹل کلینک میں بے ہوش مریض کے منہ سے 13 دانت چُرانے والی خاتون گرفتار

    امریکہ: ڈینٹل کلینک میں بے ہوش مریض کے منہ سے 13 دانت چُرانے والی خاتون گرفتار

    امریکا میں ایک ڈینٹل کلینک سے ہزاروں ڈالر چرانے کے جرم میں گرفتار ہونے والی خاتون نے بے ہوش مریض کے منہ سے 13 دانت بھی چوری کرنے کا بھی اعتراف کیا ہے ۔

    باغی ٹی وی : غیر ملکی میڈیا کے مطابق، لاریل ایچ نامی 42 سالہ خاتون امریکی ریاست نیواڈا کی واشو کاؤنٹی کے علاقے سن ویلی میں دانتوں کے ایک کلینک میں ملازمت کرتی تھیں 3 مئی کے روز چوری کی اطلاع ملنے پر مقامی پولیس مذکورہ ڈینٹل کلینک پہنچی جہاں کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا جبکہ وہاں سے ڈاکٹر کی چیک بُک کے علاوہ تقریباً 23 ہزار ڈالر کی نقد رقم بھی غائب تھی۔

    چوری کا شبہ ڈینٹل کلینک کی ملازمہ لاریل ایچ پر گیا کیونکہ واردات کے بعد سے وہ بھی مسلسل غائب تھیں ڈھائی ماہ تلاش کے بعد، لاریل کو آخرکار بدھ کے روز گرفتار کرلیا گیا جنہوں نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا۔

    تفتیش کے دوران لاریل نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ واردات سے چند روز پہلے انہوں نے ایک بے ہوش مریض کے منہ سے 13 دانت بھی نکالے تھے جنہیں وہ اپنے پرس میں چھپا کر لے گئی تھیں۔

    اس انکشاف کے بعد واشو کاؤنٹی پولیس بھی چکرا کر رہ گئی ہے کیونکہ نقد رقم چرانے کا جواز پھر بھی بنتا ہے لیکن مریض کے منہ سے پورے 13 دانت چوری کرنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آرہی فی الحال پولیس کی تفتیش جاری ہے جس کے مکمل ہونے کے بعد ہی اس راز سے پردہ اٹھ سکے گا۔

  • اگست کی تاریخ کے انوکھے ریکارڈ نے پاکستانی کا نام گنیز بک میں درج کروا دیا

    اگست کی تاریخ کے انوکھے ریکارڈ نے پاکستانی کا نام گنیز بک میں درج کروا دیا

    اگست کے مہینے نے پاکستانی شخص کا نام گنیز بک میں درج کروا دیا-

    باغی ٹی وی : امیر آزاد منگی نامی پاکستانی شخص کی تاریخِ پیدائش یکم اگست، اس کی شادی بھی یکم اگست کو ہوئی، بیوی کی اور7 عدد بچوں کی تاریخِ پیدائش بھی یکم اگست ہی ہے اس انوکھے ریکارڈ پر لاڑکانہ کے امیر آزاد منگی کے گھرانے کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کر لیا۔

    امیر آزاد منگی کے مطابق ان کی تاریخِ پیدائش یکم اگست ہے جبکہ ان کی بیوی اور 7 عدد بچوں کی تاریخِ پیدائش بھی یکم اگست ہی ہے ان بچوں میں دو بار پیدا ہونے والے 4 جڑواں بچے بھی شامل ہیں جو یکم اگست کو ہی پیدا ہوئے۔

    دنیا بھر میں یہ واحد گھرانہ ہے جو ایک ہی تاریخ پر پیدا ہوا جبکہ دوسرے نمبر پر بھارت کا ایک ہی تاریخ پر پیدا ہونے والا گھرانہ ہے جن کی تعداد 5 ہے۔

  • طالبان افغانستان اور الزام کی زد میں پاکستان .تحریر:عبدالمجید مہر ایڈوکیٹ

    طالبان افغانستان اور الزام کی زد میں پاکستان .تحریر:عبدالمجید مہر ایڈوکیٹ

    ٩/١١کے بعد امریکا نے افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو امریکہ اور عالمی دنیا کے دباو میں مجبور ہوکر ہمیں امریکہ کو راستے بھی دینے پڑے ،کیونکہ ہم راستے نا دیتے تو شائد دنیا ہم پر کئ سخت پابندیاں لگاسکتی تھی جوکہ ہمارے اپنے ملک کے لئے بہت نقصاندہ ہوتا ،ادھر امریکہ کو راستے دینے پر طالبان نے ہمیں امریکی ایجنٹ تسلیم کرلیا
    اور نئ جنگ کا آغاز شروع ہوچکا جس کے نتیجے میں کئ لاکھ افغان پناھ گزینوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی اور ہم نے ان کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مسلماں بھائیوں اور ان کے خاندانوں کو پاکستان میں نا صرف کھلے دل سے خوش آمدید کہا بلکہ ہم نے ان کے لئے کوئی مخصوص کیمپس یا علائقہ نہیں رکھا بلکہ اتنی حد تک آزادی دی کہ وہ پورے پاکستان میں جیسے چاہیں ،جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں وہاں افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ایک حکومت تشکیل دی گئی

    بقول طالبان کے حامد کرزئی کی حکومت امریکہ نے اپنے مفاد کے لئے بنائ ہے اس حکومت کا افغان سرزمین یا یہاں کے باشندوں سے کوئی تعلق نہیں اس لئے طالبان نے نا صرف امریکہ بلکہ افغان حکومت کے خلاف بھی جنگ کا اعلان کیا پاکستان کو اس جنگ کا خمیازہ بھی اس لئے بھگتنا پڑا کیونکہ ہمیں بھی امریکی ایجنٹ کا لقب دیا جاچکا تھا ،اسی سلسلے میں TTPکے دھشتگردوں نے پاکستان میں آرمی،سول اداروں ،ہمارے بازاروں،مسجدوں،اسکولوں سمیت ہر جگہ پر حملے کئے وہاں سے امریکہ کا جب دل چاہتا پاکستان میں ڈروں ماردیتا تھا جس کے نتیجے میں TTPکو ذیادہ فائدہ ہوتا تھا کیونکہ TTPقبائلی علائقوں میں مضبوط ہوتی گئ اور عوام کو پاکستان آرمی اور حکومت کے خلاف بھڑکانے میں مصروف رہی اس وجہ سے ڈرون حملے میں جس کے خاندان کے لوگ شہید ہوتے تو وہ ہتھیار اٹھالیتا پاکستان کے خلاف اسی وجہ سے ہمارے ملک میں بھی ایک جنگ سی کیفیت پیدا ہوگئ ،آئے روز دھماکوں سے نا صرف خوف کا عالم پیدا ہوگیا بلکہ اس کے نتیجے میں ہمیں ٧٠ ہزار سے زائد جانوں کے نزرانے اور اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ،بہرحال ہماری پاک افواج کی بہترین حکمت عملی سے ہم نے پاکستان میں دھشتگردی پر قابو پالیا اور ادھر افغانستان میں امریکہ اور طالبان کی جنگ اپنی آخری مراحل کی طرچ جاچکی تھی ٢٠ سالوں کی اس جنگ میں امریکہ کو مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو ایک بار پھر اپنی عزت بچانے کے لئے امریکہ نے پاکستان سے درخواست کی کہ کسی طرح طالبان اور امریکہ کے مزاکرات کروائے ہیں آخرکار پاکستان نے اپنی کوششوں سے امریکہ اور طالبان کو آمنے سامنے بٹھایا اور مزاکرات شروع ہوئے جس کے بعد امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا شروع کردی اور اب ایک بار پھر طالبان افغانستان پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں

    پاکستان نے واضع موقف اپنایا ہے کہ ہم کسی صورت ایسی کسی حکومت کو سپورٹ نہیں کریں گے جو افغان عوام کی خواہشات کے خلاف ہو اس لئے پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان پرامن مزاکرات ہوں تاکہ افغانستان کی عوام بھی سکون سے اپنی زندگی کزارسکیں اور مستقبل کا فیصلہ افغان عوام پر چھوڑا جائے کہ وہ کس کی حکومت چاہتے ہیں
    اس سارے معاملات میں جہاں امریکہ،افغان حکومت اور طالبان سب پاکستان حکومت کے کردار کی تعریف کررہی ہے وہیں
    چند شرپسند عناصر اور خاص طور پر انڈیا پاکستان پر الزام تراشی کرتے نظر آرہے ہیں کہ طالبان کی پشت پر پاکستان کھڑا ہے حالانکہ پاکستان کا واضع موقف دنیا کے سامنے ہیں لیکن چونکہ انڈیا نے افغانستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری جس کا مقصد افغان حکومت کو اپنا بناکر یہاں سے پاکستان کے خلاف دھشتگردی اور تخریب کاریاں کی جائیں گی تاکہ پاکستان کو کمزور کیا جاسکے لیکن افغانستان کی بدلتی صورتحال میں انڈیا کو اپنی ساری سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آرہی ہے اس لئے وہ اب اس پروپگینڈہ کو فروغ دے رہے ہیں کہ پاکستان اور طالبان ایک ہی ہیں

    لیکن انڈیا شائد بھول گیا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کی عوام کا رشتہ ١۴ سو سالوں پر محیط ہے ہم دونوں اطراف کے المسلم اخو مسلم کے رشتے سے بندھے ہیں ،ہم ایک دوسرے کے بھائی ہیں ،ہم دونوں اطراف امن کے داعی ہیں آج بھی افغانستان کا بچہ بچہ پاکستان سے اتنی ہی محبت کرتا ہے جتنی محبت پاکستانی افغانستان کے لوگوں سے کرتے ہیں
    پاکستان کی امن کوششوں کو دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے ،دنیا پاکستان کی تعریف کررہی ہے
    اور ہم پاکستانی ہماری حکومت ،افواج ،انٹیلجنس ادارے سب اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان کے حالات جلد سے جلد بہتری کی طرف جائیں تاکہ افغانستان میں بھی ایک عوامی حکومت آئے جو افغان عوام کی امنگوں کے مطابق کام کرے اور اس خطے میں ایک بار پھر سے امن و سکون کی ہوا چلے
    جزاک اللہ

  • مائے نی میں کنوں آکھاں……..تحریر:فرح خان

    مائے نی میں کنوں آکھاں……..تحریر:فرح خان

    عدل و انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اب تک عدل کا حصول بہت مشکل ہے۔عام آدمی انصاف کی تلاش میں خود منوں مٹی تلے سو جاتا ہے،جس کی بڑی وجہ ہے:
    لاپرواہی، اثر و رسوخ اور انصاف میں تاخیر ۔

    حیدرآباد تھانہ بلدیہ کی حدود میں شوہر کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد سے قتل ہونے والی بیوی 4 معصوم بچوں کی ماں قرت العین کے لیے شوشل میڈیا پہ آواز بلند کی جارہی ہے ۔

    قرت العین کا قاتل شوہر عمر میمن بااثر ہونے کی وجہ سے پولیس پوسٹ مارٹم رپورٹ کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا مقتول خاتون کے ورثہ کی اپیل پہ مقتول قرت العین کے قاتل شوہر عمر میمن کو سخت سزا ملے گی؟کیا معصوم بچوں کو ان کی جنت اجڑنے پہ ان کو انصاف ملے گا۔یا ہمیشہ کی طرح انصاف کی دھجیاں اڑا دی جائیں گی۔پا اثر لوگ اپنے اثر و رسوخ سے بےگناہ اور آزاد دھندھناتے پھرتے رہیں گے۔

    مائے نی میں کنوں آکھاں،
    درد وچھوڑے دا حال نی
    مائے نی میں کنوں آکھاں،

    فرح خان
    @MastaniFarah

  • وہی خدا ہے .تحریر۔۔ محمد کامران

    وہی خدا ہے .تحریر۔۔ محمد کامران

    ذرے زرے میں اس کے جلوے جو ہر قدم پر عیاں ہوتے ہیں، مگر افسوس دنیا کی لذت نے ہمیں سب بھلا دیا کہ سرسوں کے دانے کی بساط ہی کیا ! مگر تم دیکھتے نہیں کیا؟

    کہ وہ زمین کے سخت پردوں کو چیرتے ہوئے نرم و نازک سبز پتی کی شکل میں اپنا جلوہ بکھیرتے اور اپنے وجود کے زریعے اس کی وحدانیت کا یقین دلاتے ہیں۔ شبنم کی بوندیں جو تمہاری نظر میں کچھ نہیں انکی قدر نوزائیدہ نونہالوں سے پوچھو جنکی پیاس بجھا کر انہیں جوان اور تندرست کر دیتی ہیں۔سورج کی روشن چمکتی کرنیں جو صرف تم اپنی خوشی کا زریعہ سمجھتے ہوئے بے دردی سے ہر روز پاوں تلے کچلتے ہو وہ اپنی تیز و گرم مگر مہربان گود میں لے کر پرورش کرتیں ہیں اور ہر روز ایک نئی زندگی عطا کرتی ہیں۔ دیکھو ! ہوا کے شگفتہ جھونکے اس نازک ترین پودے کو جھولا جھلاتے جیسے ایک ماں انہیں اپنی گود میں لیے تحفظ کا احساس دلاتے ہوئے جوان کر رہی ہو۔

    کبھی غور کیا ؟ کہ وہ نازک پودے کس سلیقے، ترتیب اور نظم و ضبط کے ساتھ پرورش کرتے ہوئے تمہاری ہی نظروں کے سامنے تندو مند اور مظبوط پودے بن جاتے ہیں۔
    اتنے بہت سے اسباب جنکو کسی طرح بھی ہم اتفاق نہیں کہ سکتے اس معمولی بے ضرر اور باریک دانے کو مظبوط پودہ بنانے میں کار فرما رہتے اور وہ ماحول فراہم کیا جو آپ اور میں نہیں دے سکتے۔
    ہاں تو کہو ! کوئی تو ہے جسکے حکم سے سب ہوا۔۔۔
    مزہب کی اصطلاح میں اس قوت کا نام "خدا ” ہے۔ وہی خدا ہے ” وہی خدا ہے”
    جسکا وجود وحدانیت زرے زرے سے عیاں ہے، جسے دل سے تسلیم کرنے میں ہی ہم سب کی بقا ، کامیابی اور بخشش ہے۔

    تحریر۔۔ محمد کامران
    @kaamm_ii

  • جنگیں، فساد یا امن…!!! تحریر: محمد اسامہ

    جنگیں، فساد یا امن…!!! تحریر: محمد اسامہ

    جنگ کا مطلب فساد، خون ریزی، تباہی، بربادی ہوتا ہے. جنگ ہمیشہ فساد کا ہی باعث بنتی ہیں. جنگ جانی، مالی، اعصابی، جذباتی نقصان کا موجب ہوئی ہے. جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہ تھی نہ ہے. اس کا ثبوت یہ ہے کہ مسائل کو جنگ کے ذریعے حل کرنیوالے بالآخر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں. دنیا جنگوں کی تاریخ سے بھڑی پڑی ہے. ان کی داستان کوپڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہرجنگ کا اختتام میزپرہی ہوا ہے. جنگ عظیم اول ہو، جنگ عطیم دوئم ہو، ہٹلرکی نسل کشی ہو، سب جنگوں کا اختتام میزپرہوا ہے. جنگوں نے ہمیشہ کسی بھی ملک کی جانی اورمالی کمرتوڑی ہے. جنگ زدہ ممالک اپنے حال سے مزید سوسال پیچھے چلے جاتے ہیں.

    کچھ اس طرح ہی جنوبی ایشیائی ممالک میں ہورہا ہے. جنوبی ایشیاء میں برصغیر کی مثال سامنے رکھیئے. برصغیرپر1000 سال تک حکومت کرنے والے مسلمان حکمرانوں کو آپس میں لڑوا کرانگریزنے برصغیرپرقبضہ کرلیا تھا. اپنی موجودگی میں نسل پرستی کومزید شے دیکر نسلوں کوآپس میں لڑوا دیا گیا تھا. امن کا پیامبربن کردونوں نسلوں میں صلح صفائی کروا کرمعززبن جاتا تھا. برصضیرپرسوسال کی حکومت میں انگریز نے دوقوموں کو لڑوایا ہی تھا. اسی اثناء میں برصغیرمیں ایک قومی لیڈر پیدا ہوئے. جنہیں برصغیر کی موجودہ حالت دیکھ کرسمجھ آ گئی تھی کہ اب یہ دو قومیں اکٹھی نہیں رہ سکتی ہیں. ان دونوں قوموں کو علیحدہ ہونا پڑے گا. طویل جدوجہد کے بعد برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا. اس فیصلے کو منتقی انجام دینے والے وہی انگریز تھے، جنہوں نے دونوں قوموں لڑوایا تھا. چنانچہ تقسیم برصغیر کے وقت بھی انگریزخون کے پیاسے نکلے تھے. تقسیم کے دوران بھی قیمتی جانوں کا سرعام قتل کیا گیا تھا. انگریزنے برصغیر میں نہ چاہتے ہوئے بھی تقسیم کردی تھی. مگر دل میں برصغیرمیں ہونے والی ناکامی پربغض رکھا ہوا تھا. اس بغض کی وجہ سے انگریزنے برصغیرکواب تک مستقل جنگ میں دھکیل دیا ہے. وسط ایشیاء مسلسل میدان جنگ بنا ہوا ہے.

    متعدد چھوٹی جنگوں کے علاوہ اس خطے میں بڑی جنگیں ہوچکی ہیں. 70 کی دہائی میں دنیا نے روس کوآگے لگا کرسوویت یونین کے نام سے 28 ممالک نے خشک اورگرم علاقے کی سرزمین افغانستان پرحملہ کردیا تھا. اس حملہ کے نتیجہ میں بے گناہ جانوں کا ضیاع ہوا تھا. امن سے رہنے لے افغانیوں پرظلم کیا گیا تھا. پھردنیا نے دیکھا نہتے افغانیوں نے اس وقت کی دنیا کی سپرپاورکے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا. یتھیاروں سے لیس 28 ممالک کو نہتے افغانیوں سے شکست سے دوچارہونا پڑا تھا. وقت کی سپرپاورکے 26 ٹکڑے ہوئے تھے. افغانیوں نے اس وقت کی سپرپاورکا غرورخاک میں ملا دیا تھا. سپرپاوراوراس کے اتحادیوں کو منہ کی کھانا پڑی تھی. نتیجہ کیا نکلا، سپر پاوراور اس کے اتحادیوں کا، افغانیوں کا اور خطے کا امن برباد ہوا تھا، خطے کی معاشی حالت برباد ہوگئی تھی. پھراس جنگ ک اختتام بہت سی جانیں گوانے کے بعد ایک میزکے گرد بیٹھ کر، ایک کاغذ کے ٹکڑے پرہوا تھا. یوں کہیں کہ میز کے گرد بیٹحھ کرامن کا معاہدہ کرکے کیا گیا تھا. اتنی جانیں اورمال گوانیں کے بعد میزکے گرد ہی بیٹھنا تھا توجنگ کی کیوں……..

    سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کے پاس دنیا کی سرداری گئی تھی. تقریبا دس سال کےعرصہ کے بعد امریکہ نے اپنے ملک میں ڈرامائی حملہ کرکے افغانیوں پرالزام لگایا کہ یہ حملہ انہوں نے کیا ہے. اس حملے کا بدلہ لینا اوردنیا کواپنی پاوردکھانے کے لیے افغانستان میں حملہ کرنا ضروری ہوگیا تھا. اپنے ملک میں حملہ کا ڈرامہ کروانے کا مقصد یہی تھا کہ اسے افغانستان پرحملہ کرنے کا بہانہ مل سکے. چنانچہ افغانستان پرحملہ کوعملی جامہ پہنانے کیلئے 7 اکتوبر2001 کی صبح افغانستان کی سرزمین پربارود کے بادل چھانے شروع ہوگئے تھے. اس جنگ میں امریکہ اکیلا نہیں تھا. اس کے ساتھ 58 ملکوں کی فوج تھی. جنہیں نیٹو فورسسز کا نام دیا گیا تھا. ان 58 ملکوں کی فوج کے ساتھ جدید جنگی سازوسامان، دنیا کے بہت بڑے دفائی بجٹ تھے. اس جنگ کو دنیا کی مہنگی ترین جنگوں میں گنا جاتا ہے. اس جنگ مں نیٹو فورسزنے ہمسایہ ممالک سے ہوائی اڈے لے لیے تھے. خطے کے ملکوں کو بھی اس جنگ میں زبردستی گھسیٹا گیا تھا. ایک اسلامی ملک کو دوسرے اسلامی ملک کے خلاف اپنا اتحادی بنایا گیا تھا. عالمی رپوٹس کے مطابق اس جنگ میں 325 بلین ڈالر کا خرچہ کیا گیا تھا. اسلحہ کی ہرنئی ایجاد اس جنگ میں استعمال کی گئی تھی. 2001 سے شروع ہونے والی یہ جنگ 2020 تک چلی. اس جنگ میں نیٹو فورسز کے لاتعداد فوجی قتل ہوئے تھے. مدمقابل افغانی قوم نے کچھ نہ ہونے کے باوجود ان 58 ممالک کا بھرپورمقابلہ کیا. دنیا اس بات کی گواہ ہے کہ نہتے افغانیوں نے نیٹو فورسزکے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے. دونوں ہتھیار بند فورسز نے ایک دوسرے کا بھرپورمقابلہ کیا ہے. مگر اس جنگ میں افغانستان کے معصوم لوگوں کا بہت نقصان ہوا ہے. اپنے گھروں سے نکل مکانی کرنا پڑی ہے. 20 سال کی جنگ میں نیٹو فورسز کو افغانستان کی ایک انچ جگہ بھی نہیں ملی. بلکہ 20 سال کی طویل جنگ کے بعد افغانستان کے مدمقابل لوگوں کے سامنے ہتھیارڈالنے پڑے ہیں. نیٹو فورسزنے افغانستان کے پمسایہ ملکوں سے منت ترلہ کرکے اس طویل جنگ کوختم کرنے کا اعلان کیا ہے. آخر20 سال کی قتل و غارت کے بعد میزکے گرد ہی بیٹھنا پڑا. نہتھے افغانیوں سے جنگ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے، بلکہ جان اورمال کا ضیاع ہوا ہے.

    انگریز نے جنوبی ایشیاء میں جنگیں کیوں کیں……!!!!!!
    برصغیر کی تقسیم سے پہلے اس علاقے پر ہزار سال تک مسلمانوں نے حکومت کی ہے، اپنے دورحکومت میں ان حکمرانوں نے اس خطےمیں امن کا قیام کیا، انصاف کیا. مگر ہرعروج کو زوال ہوتا ہے. مسلمان حکمران آپس میں لڑنا شروع ہوگئے تھے. پھرانگریزنے اس کا بھرپورفائدہ اٹھایا. ان کی لڑائیوں میں مزید آگ لگادی. آگ کی شدت اتنی ہوگئی کہ پورے خطے میں اپنی حکمرانی کھو بیٹھے تھے. انگریز نے اس خطے پرقبضہ کرلیا تھا. 100 سال تک حکومت کی. اس خطے کی عوام نے ان کی حکومت کوقبول نہیں کیا. ایک نظریاتی ملک کے قیام کی تحریک نے برصغیرکو دوحصوں میں تقسیم کردیا. دنیا کے نقشے پرایک نظریاتی ملک وجود میں آگیا تھا. اس ملک نے بہت تھوڑے عرصے دنیا میں بہت اہمیت حاصل کرلی تھی. قدرت نے اس علاقے کو بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے. گرم پانی یہاں ہے، ہر قسم کی معدنیات یہاں ہیں، دنیا کی سب سے بہترین بحری پورٹ یہاں ہے، صلاحیت سے بھرپورعوام یہاں پیدا ہوتے ہیں.

    اس ساری بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء میں ہونے والی ان طویل جنگوں کا مقصد اس نظریاتی ملک پرقبضہ کرنا تھا. جو بری طرح ناکام ہوا ہے. سوویت یونین کی سپرپاورہویا نیٹوفورسزسب نے اپنے بھرپوروسائل لگائے ہیں. مگراس نظریاتی ملک کو زیرنہیں کرسکے ہیں. افغانستان میں سوائے خشک پہاڑوں کے کچھ نہیں ہے. جس نے بھی افغانستان پرحملہ کیا ہے اس کا مقصد نظریاتی ملک تھا. کیونکہ اس نظریاتی ملک نے آزاد ہونے کے تھوڑے ہی عرصہ میں ایٹمی حیثیت کرلی تھی. دنیا کو یہ بات چبھنے لگ گئی تھی. دنیا نے محسوس کرلیا تھا کہ اس نظریاتی ملک مستقبل میں ہماری جگہ لے لیگا.

    ان دو جنگوں کے بارے مختصر تعارف کروانے مقصد یہ ہے کہ جنگ کے کیا نتائج حاصل ہوتے ہیں؟
    جنوبی ایشیاء میں 70 کی دہائی سے شروع ہونے والی طویل جنگ نے خطے میں بے امنی اورخطے کومعاشی طور پرکمزورکیا ہے. جنگ ہمیشہ فساد برپا کرنے کا ہی باعث بنی ہے. دہشت گردی کے نام سے شروع ہونے والی جنگ نے خطے میں مزید دہشت گردی پھیلائی ہے. ایک تہذیب کی عوام کودوسری تہذیب کی عوام سے میں لڑوایا گیا ہے. پیسا دے کر بھائی کو بھائی کا قاتل بنایا گیا ہے. ان جنگوں سے جنوبی ایشیاء کے خطے میں بسنے والے ملکوں کی معیشت تباہ ہوئی ہے. قوموں کے مستقبل تباہ ہوئے ہیں. کسی کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے. بلکہ شکست سے دوچارہونا پڑا ہے. جن کی سرزمین تھی وہی دوبارہ اپنی حکومت قائم کرنے کے قریب ہیں. یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس نظریاتی ملک کو صفحہ ہستی سے مٹانے آۓ تھے اسی کی منتیں کرنا پڑیں. اس کے ذریعے سے افغانستان میں جنگ بندی کیلئے ثالثی کا کردار ادا کروایا. اس نظریاتی ملک کو درمیان میں ڈال کر اس جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا گیا. یہ ہے اس نظریاتی ملک کی دنیا میں اہمیت.

    @its_usamaislam

  • قحط سالی کا شکار تھراوربےحس سندھ حکومت . تحریر: فرازوہاب

    قحط سالی کا شکار تھراوربےحس سندھ حکومت . تحریر: فرازوہاب

    اسلامی اقدارمیں خلیفہ کی ذمہ داری بہت اہم بنائی گئی ہے جب کوئی شخص خلیفہ کے عہدے پرفائزہوتا ہے تواپنی رعایا کے حقوق کے تحفظ کا ذمہ داربنا دیا جاتا ہے ایک صحابیِ رسول صلہ اللہ علیہ وسلم نے جب آپ صلہ اللہ علیہ وسلم سے پوچھا بہترین صدقہ کیا ہے تو آپ صلہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’پانی پلانا‘۔

    لیکن آج اْمتِ مسلمہ پانی کی بوند کے لیے ترس رہی ہے اورارباب اقتدارجانورتو دورانسانی اموات کے ضیاع پربھی انتہائی ڈھٹائی سے کہ رہے ہیں کہ موت کا اختیار اللہ کے پاس ہے انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ وزیراعلی سندھ ایمانداری سے بتائیں کیا وہ چھوڑ سکتے ہیں اپنے اہلخانہ کوقحط زدہ تھرمیں؟ وہ بھی بغیرپانی کے؟ ماضی میں جب وزیراعلیٰ سندھ سے تھر کے متعلق کوئی بھی سوال کیا جاتا تو انتہائی مضحکہ خیزبات فرماتے کہ تھرمیں اموات بھوک سے نہیں غربت سے ہو رہی ہیں پتا نہیں کس قسم کا نفسیاتی معاملہ ہے وزیراعلی سندھ کے ساتھ جو ان کو یہ نہیں معلوم کہ غربت ہی بھوک کو جنم دیتی ہے اورشرجیل میمن کا یہ بیان کہ پاکستان میں روز600 بچے مرتے ہیں تھرمیں مرنے پہ شورشرابہ کیوں انتہائی سنگدلی اوربے غیرتی کی مثال تھی.

    ظاہر سی بات ہے اگرتھرمیں بھٹو، تالپور، سومرو اورمگسی خاندان رہتے تو وہ منرل واٹرپرگذارا کرتے پرتھرکواس لیے نظراندازکردیا گیا کہ وہاں غریب عوام رہتی ہے جو کنویں سے پانی بھرکراونٹوں اورگدھوں پرلاد کرگھرپہنچاتی ہے اورتھرکے معصوم بچے جنہیں تعلیم کی طرف جانا چاہیے وہ بچے بھی تعلیم کے بوجھ کی بجائے پانی کا بوجھ کاندھوں پرلیے پھرتے ہیں۔ سندھ دھرتی کے دعوے داربلاول زرداری سے سوال ہے کہ اس ضمن میں انہوں نے سندھ دھرتی جسے وہ ماں کہتے ہیں کی کیا خدمت کری؟ کیا کوئی اپنی ماں کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے جیسا سندھ دھرتی کو ماں کہنے والوں نے تھرکے ساتھ کیا؟

    سندھ حکومت کی بے حسی کی انتہا تو تھرمیں عیاں ہوگئی لیکن حیرت ہے وفاقی حکومت بھی غفلت کی چادراوڑھے ہوئے ہے اب تک سندھ حکومت اوروفاقی حکومت کی جانب سے تھرکے معاملے میں کوئی عملی اقدامات نظرنہیں آئے۔ تھرکے حالات سے حکمرانوں کی بےحسی کا اندازہ ہوجانا چاہیے جوپانچ کروڑکی آبادی والے صوبے کی عوام کوقحط سے ماررہے ہیں اتنی بڑی ناکامی پرسندھ حکومت کوغیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعفی ہوجانا چاہیے تھا۔

    @FarazWahab1

  • میرے بلوچستان کے مسائل . تحریر: آصف کریم بلوچ

    میرے بلوچستان کے مسائل . تحریر: آصف کریم بلوچ

    بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ھے. اس کا رقبہ 347190 مربع کلومیٹرھے جو پاکستان کا کل رقبے کا 43.6 فیصد حصہ بننا ھے قدرتی وسائل سے مالامال بلوچستان محل وقوع میں اہم ترین صوبہ ھے اتنے بڑے صوبے کی عوام مختلف پریشانیوں کا شکارھے.

    1. جرائم، پانی کی قلت اوربجلی کی قلت کچھ بڑے مسائل ہیں.
    2. بلوچستان میں مختلف شہروں میں بہت بڑے حادثہ ہوتے ہیں روڈ سنگل ہونے کی وجہ سے حادثے ہورہے ہیں اگرڈبل روڈ بنایا جائے تو اس مسئلہ کا سامنا نہ کرنا پڑے.
    3. بلوچستان میں جنتی بھی سرکاری زمین ہیں وہاں اکثرپرقبضہ مافیا کا قبضہ ھے وہاں سے قبضہ ختم کیا جائے تو بہترہوگا.
    4. بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال ھے لیکن ہرسہولت سے محروم ھے سمجھ نہیں آتی اس قصورواربلوچستان کی عوام ھے یا سیاستدان لہذا ہماری اپیل ھے کہ بلوچستان کے وسائل بلوچستان کی عوام پرخرچ کیئے جائیں توبہترہوگا.
    5. روڈوں و ہسپتالوں کے حالت ہرضلع میں خراب ھے کسی ضلع میں ہسپتال کی بلڈنگ ٹوٹی پھوٹی ھے کسی ضلع کی ہسپتال میں ڈاکٹرغیر حاضررہتے ہیں روڈوں کا ٹھیکہ سیاسی لوگوں کے بندوں کو ملتا ھے جہاں 100% فیصد میں سے 40 فیصد کام ہوتا ھے ایک مہینہ کے بعد روڈ کی حالت بگڑ جاتی ھے لہذا روڈوں اورہسپتالوں کی حالت بہتربنائی جائے.

    اس کا خلاصہ یہ ھے کہ معاملات بہت سنگین ہیں عوام کو اس طرح کی مہلک پریشانیاں کا سامنا کرنا پڑتا ھے تاہم مناسب ارادے اورعزم کے ساتھ صوبائی گورنمنٹ وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر ان مسائل کا حل نکالیں بلوچستان کے مسائل کا حل آسان ہے اگرکوئی نکالنا چاہے تو مسلہ بڑا نہیں ھے لیکن افسوس بلوچستان کے سیاستدانوں نے بڑا بنا دیا ہے. میں چاہتا ہوں صوبائی اوروفاقی گورنمنٹ بلوچستان کے پانچ بڑے مسائل پرتوجہ دیں.

    @AsifKarimBaloch