مزید دیکھیں

مقبول

پی ایس ایل کی براڈ کاسٹ کمپنی میں شامل بھارتی عملے کو واپس بھیج دیاگیا

پہلگام واقعے کے بعد پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی...

حکومتی کارکردگی میں بہتری کیلئے وزیراعظم نے کمیٹی بنا دی

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے حکومتی کارکردگی میں بہتری...

عالیہ حمزہ کی ضمانت منظور

راولپنڈی کی عدالت نے پی ٹی آئی رہنما...

ایل او سی پر دراندازی، بھارت کا ایک اور جھوٹ پکڑا گیا

23اپریل 2025 کو لائن آف کنٹرول کے علاقے...

آسمان پر یہ ‘مسکراتا’ چہرہ دیکھنے کیلئے تیار ہو جائیں

دنیا بھر میں لوگ 25 اپریل کو آسمان پر...

کیا ہم نے جینے کا حق ادا کر دیا،‏تحریر: زری کشمیری

زندگی انمول ہے۔زندگی پیدا ہونے سے شروع ہوتی ہے ۔اور اس کا اختتام موت سے ہوتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے؟ کیا کبھی ہم نے اپنی زندگی پر نظر ثانی کی ہے۔ کیا زندگی بادشاہی ہو یا فقیری میں ہی گزاری ہو۔کیا ہم نے جینے کا حق ادا کر دیا۔ یہ سوال ہر بنی نوع انسان کو خود سے کرنا چاہیے۔اگر مجھ سے پوچھیں تو کیا ہم مال و دولت عیش عشرت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے سے نکل پائے۔ کیا اللّٰہ پاک رب العالمین کے احکامات کے مطابق ہم نے زندگی گزاری؟ ہمارا مقابلہ مال و دولت اور آسائش میں آگے بڑنا نہیں ہے۔ بلکہ بحثیت اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے نیک کاوں میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔یہی انسانیت یہی اصل زندگی ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ شائد اس زمانے کے لیے لکھا تھا۔ ،،نیکی میں جو کام نہ آیا اوکھے سوکھے ویلے، اس بے فیض سنگی سے بہتر یار اکیلے،، کچھ عرصہ قبل تک ہماری زندگیاں بہت مختلف ہوا کرتی تھیں، روزمرہ کے کام کاج اور زندگی بسر کرنے کے طور طریقے ، ہماری روٹین سب کچھ ایسا تھا جس میں ہم خود کو پُرسکون محسوس کرتے تھے ، ہمارے اردگرد کے لوگ اور اب کی صحبتیں ایسی ہوا کرتی تھیں جس سے ہم اور ہمارے پیارے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے تھے، مثال کے طور پر، مل جل کر رہنا، ایک دوسرے سے محبت کرنا، اپنے پیاروں اور آس پاس بسنے والوں کا خیال کرنا، بڑوں کی عزت و احترام اور چھوٹوں سے پیار کرنا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ حیات میں تلخی ہے مگر خیر چل زری شکوہ جو تُو کرے، تو خدا روٹھ جائیگا ۔۔ پھر آہستہ آہستہ ہم دورِجدید میں داخل ہوتے گئے، نفسا نفسی کے اس دور میں ہر طرف ہر سُو افراتفری کا عالم ہے جہاں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ہے ۔ ہر شخص بے سکونی میں مبتلا ہے سب کے پاس زندگی گزارنے کی تمامتر سہولیات میسر ہونے کے باوجود بھی بے چینی کی کیفیت طاری ہے، یہاں تک کے نماز ادا کرنے میں بھی ہر شخص جلدبازی کر رہا ہے ۔ لوگ نماز کی اہمیت بھول رہے ہیں اور بس اس فرض کو بھی کسی صورت سر سے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں.. اس دنیا میں رہتے ہوئے ۵ منٹ کی نماز ادا کرنے گھر کے ساتھ تعمیر کی گئی مسجد میں جایا نہیں جاتا اور مرنے کے بعد ہم جنت کے طلبگار ہیں ۔۔ زمانہ بھی کیا سے کیا ہوگیا، بھلا کر انسانیت خدا سے جدا ہوگیا، ہماری کچھ عرصے پہلے کی زندگی میں ہمارے حال کی نسبت کافی حد تک فرق تھا ،اور وہ فرق ایسے تھا کہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی بہت بہترین طریقے سے بسر کر رہے تھے، ہر کام کے لئے مکمل فرصت تھی، گھر کے سب کام وقت پر ہوتے تھے سب کے پاس اپنے پیاروں کو دینے کے لئے ڈھیروں محبتیں ہوتی تھیں ۔۔

اس دور میں اتنی مشینری بھی میسر نہ تھی اس کے باوجود بھی کام اپنے مقررہ وقت پر ہوجاتے تھے ۔۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اُس محنت اور لگن سے کام کرنے والے دورہِ حیات میں جب ہم خوش اسلوبی سے جی سکتے تھے تو آج کے اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کیوں نہیں جی پاتے ؟؟ جبکہ ابھی تو ہمارے پاس ہر کام کرنے کے لئے اعلی سے اعلی مشینری بھی موجود ہے ۔۔ دلوں میں خوف تھا نہ دہشتوں کا پہرا تھا میرے خیال میں وہ دور ہی سنہرا تھا ۔۔ زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو دلوں میں گنجائش پیدا کریں کسی کی بات کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا کریں لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا سیکھیں دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا سیکھیں اپنے آس پاس کے لوگوں کی پریشانیوں دکھ اور تکلیف کو اپنا سمجھ کر محسوس کرنا سیکھیں تو انشاءاللہ اس دور میں بھی پرسکون زندگی گزار سکیں گے ۔