مبینہ آڈیوز لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت ، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ کر دیا گیا
تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ چیف جسٹس نے آڈیو لیکس بینچ پر اعتراضات کا حقیقی منظر نامہ بھی بیان کردیا،بینچ سے علیحدگی کی درخواست کا تعلق 14 اور 18 جنوری کو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے ہے،آرٹیکل 224 کے تحت پنجاب میں 14 اپریل اور خیبرپختونخوا میں 18 اپریل کو انتخابات ہونا تھے، متعلقہ حکام نے ڈیڈ لائن کے بوجود انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا، نتیجتاً پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر ہوئیں ،درخواستوں میں عام انتخابات کی تاریخ دینے کی استدعا کی گئی،لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کی مجاز اتھارٹی قرار دے دیا ،گورنر پنجاب اور الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کیں،90 دن کی آئینی ڈیڈلائن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے 16 فروری کو چیف جسٹس کو از خود نوٹس کیلئے نوٹ لکھا، 18 فروری کو پنجاب اور کے پی کے اسپیکرز نے سپریم کورٹ میں مشترکہ درخواست دائر کی، مشترکہ درخواست میں عدالت سے پنجاب میں خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ مانگی گئی، اطلاعات کے مطابق اس دوران ہائیکورٹس میں معاملہ التوا کا شکار تھاچیف جسٹس نے 22 فروری کو انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر ازخود لیا، چیف جسٹس نے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے کر 23 فروری کو سماعت کیلئے مقرر کردیا،
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ اسی دوران 16 فروری کو ٹوئیٹر پر انڈیبل نامی اکاؤنٹ سے تین مبینہ آڈیوز جاری ہوئیں ، ایک مبینہ آڈیو چوہدری پرویز الٰہی اور ارشد جھوجا کے مابین گفتگو پر مشتمل تھی،ایک مبینہ آڈیو صدر سپریم کورٹ بار اور چوہدری پرویز الٰہی کے مابین تھی،تیسری مبینہ آڈیو چوہدری پرویز الٰہی اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے درمیان تھی،دو ماہ کے دوران نامور شخصیات کی ٹیلی فونک گفتگو کی مبینہ آڈیو ریکارڈنگ جاری ہوئیں 23 اپریل کو مبینہ طور پر چیف جسٹس کی خوش دامن کی بھی آڈیو جاری کی گئی، وفاقی حکومت نے مبینہ آڈیوز کی تصدیق کئیے بغیر ججز کی تضحیک کیلئے آڈیوز کی توثیق کر دی،وفاقی حکومت نے عدلیہ کی آزادی کو بالائے طاق رکھ دیا،وفاقی وزراء نے مبینہ آڈیو ریکارڈنگز کو ججز کی حکومت کے خلاف تعصب کے ثبوت کے طور پر پیش کیا،منتخب حکومت کے نمائندوں کی جانب سے اعلی عدلیہ کے ججز کی تضحیک کا عمل نا صرف میڈیا بلکہ پارلیمان میں بھی جاری رہا،وفاقی حکومت نے بالآخر 19 مئی کو مبینہ آڈیوز پر ایکشن لیا ، وفاقی حکومت کی جانب سے مبینہ آڈیوز کی تحقیقات کیلئے تین رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا،کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی حکومت کی خواہش پہلے آڈیوز کی سچائی جاننا تھی ،انکوائری کمیشن کا مقصد آڈیوز کی درستگی ثابت ہونے پر تادیبی کارروائی کا تعین کرنا تھا،اگر کمیشن اس نتیجے پر پہنچتا کہ آڈیوز جعلی ہیں تو انہیں بنانے والوں کیخلاف کاروائی ہونا تھی،
وفاقی حکومت نے اعلی عدلیہ کے تین ججز کو انکوائری کمیشن کے لئے چنا، ریکارڈ پر موجود ہے کمیشن کی تشکیل سے پہلے وفاقی حکومت نے چیف جسٹس کو نہ مطلع کیا ، نہ مشورہ کیا اور نہ ہی انکی رضا مندی حاصل کی،آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نے 22 مئی کو پہلا اجلاس بلایا،کمیشن کے اجلاس کے فوری بعد سپریم کورٹ میں کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواستیں دائر ہوئیں ، 26 مئی کو موجود 5 رکنی لارجر بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی،اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کی،بینچ سے علیحدگی کی درخواست کا جواز چیف جسٹس کی خوش دامن کی مبینہ آڈیو بتایا گیا، عدالت نے اٹارنی جنرل کی درخواست کو مسترد کردیا،عدالت نے آڈیوز آئیندہ سماعت تک آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کام سے روک دیا،31 مئی کو اٹارنی جنرل نے ججز کی بینچ سے علیحدگی کیلئے درخواست دائر کی، اٹارنی جنرل نے کہا جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کی بینچ سے علیحدگی کا معاملہ نہیں اٹھائیں گے،لہذا ہمارا فیصلہ صرف چیف جسٹس کی بینچ سے علیحدگی کی درخواست تک محدود ہے ،دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ، مختلف حربوں سے عدالتی فیصلوں میں تاخیر، عدالت کی بے توقیری کی گئی،بے توقیری کا سلسلہ یکم مارچ 2023 سے شروع ہوا، حکومت 4 اپریل کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے بجائے نظر ثانی اپیل کے پیچھے چھپ گئی، وفاقی حکومت کا مقصد اپنی بے عملی کو جواز دینا تھا، ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز قانون کو سپریم کورٹ غیر آئینی قرار دے چکی ہے، وفاقی حکومت نے متعدد آئینی مقدمات سے ججز کو الگ کرنے کیلئے درخواستیں دائر کیں، آڈیو لیکس میں بھی مفادات کا ٹکراؤ بے سروپا بنیادوں پر درخواست دائر کی،آڈیو لیکس کیس کیخلاف اعتراض کا مقصد چیف جسٹس پاکستان کو بنچ سے الگ کرنا تھا،وفاقی وزرا نے انتخابات کیس میں عوامی فورمز پر اشتعال انگیز بیانات دیے،وزیروں کا اشتعال انگیز بیانات کا مقصد حکومتی ایجنڈے کو تقویت دینا تھا، سپریم کورٹ نے حکومت کے ان مقدمات کو انتہائی تحمل اور صبر سے برداشت کیا، ججز پر اعتراضات والی حکومتی درخواست عدلیہ پر حملہ ہے،
قبل ازیں سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا ،عدالت نے ججز بینچ پر حکومتی اعتراض مسترد کردیا ،عدالت نے ججز پر اعتراض کو عدلیہ پر حملہ قرار دے دیا ،عدالت نے بینچ سے علیحدگی کی درخواست کو مسترد کردیا ،آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف مقدمہ سننے والے بنچ پر حکومتی اعتراضات مسترد کر دیئے گئے،سپریم کورٹ نے چھ جون کو محفوظ کیا گیا فیصلہ تین ماہ بعد سنا دیا
حکومت نے چیف جسٹس، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر اعتراضات کیے تھے ،حکومت نے مفادات کے ٹکرائو پر تینوں ججز کی بنچ سے علیحدگی کیلئے متفرق درخواست دائر کی تھی ،سابقہ اتحادی حکومت نے پرویز الہی، چیف جسٹس کی خوش دامن سمیت 9 مبینہ آڈیوز کی تحقیقات کیلئے کمیشن قائم کیا تھا سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسی کی سربراہی میں قائم آڈیو لیکس کمیشن کو پہلے ہی کام سے روک رکھا ہے ،پی ڈی ایم حکومت نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والے بینچ پر اعتراضات اٹھائے تھے چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض اٹھایا گیا تھا ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا
حکومت نے چیف جسٹس سمیت بینچ کے 3 ممبران پر اعتراض کردیا
زیر تحقیق 9 آڈیوز کے ٹرانسکرپٹ جاری
آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن نے کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کر دیا