13 سال بعد گھر آیا تو والدہ سجدے میں تھیں،شامی نوجوان کی کہانی

shami

احمد مرجان 13 سال سے زیادہ عرصے کے بعد اپنی والدہ کو گلے لگانے کے لئے بے چین تھا، لیکن جب وہ اپنے بچپن کے گھر کے دروازے تک پہنچا تو اس نے اپنی والدہ کو فرش پر سجدے میں پایا۔ مرجان فوراً اپنے گھٹنوں کے بل گر گیا اور "یا اللہ!” کہتے ہوئے شکر گزار ہو گیا، کیونکہ وہ ایسا لمحہ محسوس کر رہا تھا جو شاید کبھی نہ آتا۔

یہ جذباتی لمحہ، جو سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا، شام کی حالیہ آزادی کے بعد کی کئی گھر واپسیوں میں سے ایک ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد، لاکھوں افراد، جو جنگ کی وجہ سے ملک سے فرار ہو گئے تھے، واپس اپنے وطن لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔شام کی 13 سالہ خانہ جنگی نے 6 ملین افراد کو پناہ گزین بنا دیا اور 7 ملین افراد کو ملک کے اندر بے گھر کر دیا، جیسا کہ اقوام متحدہ کے مطابق ہے۔ ان میں سے ایک ملین افراد 2025 کے پہلے چھ ماہ میں واپس آنے کی توقع رکھتے ہیں، اور اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے ان کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے عطیات کی اپیل کی ہے۔

احمد مرجان کی داستان
جب 2011 میں بشار الاسد کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوا، احمد مرجان، جو اس وقت 18 سال کا ایک طالب علم تھا، نے کیمرہ اٹھایا اور اپنے شہر حلب میں ہونے والے بڑے احتجاجات کی ویڈیوز بنانی شروع کیں۔ وہ جلد ہی حکومتی سکیورٹی فورسز اور شہر کی خفیہ ایجنسیوں کی نظر میں آ گیا، جس کی وجہ سے اسے چھپنا پڑا۔ 2012 میں حلب کا شہر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا.ایک حصہ باغیوں کے قبضے میں آ گیا، جبکہ دوسرا حصہ، جس میں مرجان کا محلہ بھی شامل تھا، حکومت کے کنٹرول میں رہا۔مرجان، جو حکومت کی طرف سے مطلوب تھا، نے فیصلہ کیا کہ وہ جنگ کے محاذ کو عبور کرے گا اور باغی علاقے میں پناہ لے گا، اور اپنی فیملی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کے بعد وہ ایک میڈیا نیٹ ورک میں سرگرم ہو گیا، جہاں وہ شامی فوج کے محاصرے کے دوران کام کرتا رہا۔ ان علاقوں میں زندگی انتہائی مشکلات کا شکار تھی، جہاں عوام کو کھانے، پانی اور دوائی کی شدید کمی کا سامنا تھا۔

2016 میں حلب کے محاصرے کے بعد، جب باغی فورسز اور شہریوں نے شہر سے انخلاء کیا، مرجان نے ایک ویڈیو بنائی اور انٹرنیٹ پر شیئر کی جس میں کہا: "ہم اپنی عزت کے ساتھ جا رہے ہیں، ہم سر اونچا کرکے جا رہے ہیں، اور ایک دن واپس آئیں گے۔”مرجان نے ترکی میں پناہ لی، جہاں اس نے ایک نئی زندگی کی بنیاد رکھی۔ تاہم، شام ہمیشہ اس کے ذہن میں تھا۔ جب اس نے سنا کہ باغیوں نے حلب کو دوبارہ آزاد کر لیا ہے، تو اس نے اپنی والدہ سے رابطہ کیا اور وعدہ کیا کہ وہ واپس آئے گا۔

"13 سال کے جلاوطنی کے بعد اپنے گھر واپس آ کر میں اس احساس کو بیان نہیں کر سکتا،” مرجان نے کہا۔ "جب میں دروازے تک پہنچا، میرے پاؤں نہیں چل سکے۔ ہم اتنے خوش تھے اور جذباتی تھے کہ میری والدہ اور میں دونوں سجدے میں گر گئے۔ یہ خالص خوشی تھی۔”لیکن اس خوشی کے باوجود، مرجان کا کہنا ہے کہ واپس آنا خطرات سے خالی نہیں تھا۔ شہر کی گلیوں میں سابقہ حکومتی فوجی اور خفیہ افسران موجود تھے، جن کی موجودگی نے اس کے ذہن میں خوف پیدا کیا۔ اس نے ایک رات اپنے عزیزوں کے ساتھ وقت گزارا اور پھر اگلی صبح واپس ترکی واپس لوٹ آیا۔اب وہ دوبارہ حلب واپس جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا وطن اب بھی مشکلات میں گھرا ہوا ہے، جہاں 90 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، مگر اس کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ایک نئی شام کی تعمیر کے لیے ہے۔

دوسری جانب ایک اور شامی نوجوان حسین کاساس نے اپنے اسمگلروں سے درخواست کی تھی کہ اسے صحرا میں مرنے دیا جائے۔ یہ 2016 کی بات ہے جب وہ شام سے اردن کی سرحد تک 13 گھنٹوں کی مسافت طے کر رہا تھا، لیکن اس کے جسم نے مزید چلنے کی طاقت نہ دی۔ دو ماہ پہلے ایک بیرل بم کے حملے میں اس کے گھٹنے میں شریشوں کی جراحی ہوئی تھی۔”میں نے ان سے کہا، ‘مجھے چھوڑ دو، میں اور نہیں چل سکتا، مجھے حکومتی فورسز کے ہاتھوں مارا جائے۔'” حسین نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا۔ لیکن آخرکار وہ اردن پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور وہاں پناہ حاصل کی۔ اس کا سفر بھی وہ تھا جو ہزاروں شامیوں کا مقدر بنا۔

شام کی جنگ کے نتیجے میں لاکھوں افراد اپنی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کچھ اپنی جڑوں کی طرف واپس لوٹنے کی امید رکھتے ہیں، جبکہ کچھ ابھی بھی اس خوف میں زندگی گزار رہے ہیں کہ ان کا ماضی ان کا پیچھا کرے گا۔ ان دونوں کہانیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کے لوگ نہ صرف اپنی مادری سرزمین کے لیے، بلکہ ایک بہتر مستقبل کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔

ایلون مسک کی ٹویٹ،ڈونلڈ ٹرمپ اور مائیک جانسن کے درمیان تنازع

وزیراعظم کی کاروباری سہولت مراکز کی جلد از جلد تعمیر مکمل کرنے کی ہدایت

Comments are closed.