مزید دیکھیں

مقبول

کال سنٹر کامقدمہ، ارمغان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کرنے کا حکم

کراچی کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت جنوبی نے غیر...

پہلگام ڈرامے پر تنقید،بھارت میں مسلمانوں کی گرفتاریاں

بھارتی سکیورٹی اداروں نے پہلگام واقعے پر تنقید کرنے...

پاک بھارت کشیدگی کے باوجود اظہار یکجہتی فلسطین کیلئے پہیہ جام و شٹر ڈاؤن ہڑتال

قصور آج بسلسلہ اظہار یکجہتی فلسطین مکمل شٹر ڈاؤن و...

حکومت کا مشیر قومی سلامتی کی خالی آسامی پر تعیناتی پر غور

پاک بھارت تنازع کے پیش نظر وفاقی حکومت...

عمران خان اور بشری بی بی کیخلاف توشہ خانہ کیس میں بھی ریفرنس دائر

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے احتساب عدالت اسلام آباد میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایک اور ریفرنس دائر کردیا ہے-

باغی ٹی وی : نیب نے سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس دائر کیا ہے جس میں نیب راولپنڈی کی جانب سے صرف ان دونوں ملزمان کے نام دئیے گئے ہیں، نیب پراسیکیوٹر سہیل عارف نے تفتیشی افسر محسن ہارون اور کیس افسر وقار الحسن کے ہمراہ ریفرنس دائر کیا جس کے بعد احتساب عدالت کے رجسٹرار آفس نے ریفرنس کی جانچ پڑتال شروع کردی۔

واضح رہے کہ چند روز قبل نیب نے عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور دیگر کیخلاف القادر ٹرسٹ کیس میں کرپشن ریفرنس دائر کیا تھا۔ نیب کی مداخلت سے قبل، عمران خان 2 مرتبہ پہلے بھی توشہ خانہ سکینڈل کی وجہ سے متاثر ہو چکے ہیں۔ 21 اکتوبر 2022 کو عمران خان کو قومی اسمبلی سے5 سال کیلئے الیکشن کمیشن نے نا اہل قرار دیا تھا کیونکہ وہ مہنگے تحائف فروخت کرنے کے معاملے میں سچ چھپانے کے مرتکب قرار دیئے گئے تھے۔

چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کی سربراہی میں5 رکنی بینچ نےیہ فیصلہ سنایا تھا اور سچ سامنے نہ لانے کی وجہ سے عمران خان کیخلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ سنایا گیا تھا، عمران خان کیخلاف فیصلے کے بعد، الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں عمران خان کیخلاف کیس بھجوا دیا، عدالت نے رواں سال اگست میں عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں 3 سال کی سزا سنائی۔

توشہ خانہ کیس کا تنازع اس وقت سامنے آیا تھا جب ایک صحافی کی جانب سے معلومات کے حصول کے قانون (رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ) کے تحت پوچھے گئے سوال پر عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم یہ بتانے سے انکار کر دیا تھا کہ انہیں عہدے پر رہتے ہوئے کتنے تحائف ملے تھے۔ حکومت کی جانب سے یہ کہتے ہوئے جواب دینے سے انکار کیا گیا تھا کہ جواب دینے کی صورت میں دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے۔