عمران خان کا دورہ چین اور چہ میگوئیاں، تحریر:نوید شیخ

0
105
کپتان سعودیہ کے بعد چین، روس،قازقستان سے قرض لینے کو تیار

آجکل عمران خان کے دورہ چین کا بہت شور مچا ہوا ہے ۔ وزیر مشیر بھانت بھانت کی چیزیں نکال کے لارہے ہیں کہ کپتان جب چین کی سرزمین پر قدم رکھے گا تو پتہ نہیں کیا ۔۔۔ انی ۔۔۔ مچا دینی ہے ۔ ۔ حالانکہ سچ اور حقیقت یہ ہے عمران خان نے اپنے ہاتھوں سے سی پیک کو دفن کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ اس لیے اس دورہ کے شروع ہونے سے پہلے ہی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ ۔ کیا عمران خان چین کا ناکام دورہ کرنے جا رہے ہیں ؟؟؟۔ کیونکہ اس وقت جو اطلاعات اور خبریں وزارت خارجہ سے باہر نکل رہی ہیں ان کے مطابق بڑے مشکل حالات میں یہ دورہ ہونے جارہا ہے ۔ چینی قیادت بھی پاکستانی عوام کی طرح کپتان سے ناراض دیکھائی دیتی ہے ۔ یہاں تک کہ اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ پہلے ایک ملک کا سربراہ عمران خان کا فون نہیں اٹھاتا تھا تو دوسرا فون نہیں کرتا تھا ۔ اور اب شاید تیسرا کے بارے کہا جائے کہ وہ اپنے گھر بلا کر ملتا بھی نہیں ۔ ۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو۔ میری دعا ہے اور خواہش بھی ہے کہ یہ ملاقات ہوجائے ۔ کیونکہ عمران خان سے تمام تر اختلاف کے باوجود یہ پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوگا ۔

۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یاد کروادوں کہ گذشتہ سال داسو میں دہشت گرد حملے میں چینی کارکنوں کی ہلاکتوں اور سی پیک کی سست روی کی وجہ سے چین اور پاکستان کے تعلقات سردمہری کا شکار رہے ہیں۔ اس حوالے سے بڑی کھل کر میڈیا پر بھی بات ہوتی رہی ہے اور چینی کمپنیوں کے عہدیداروں سمیت دیگر چینی ۔۔۔ پاکستانیوں سے برملا اس کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں ۔ ایک دو ایسی ملاقاتوں کا تو میں خود بھی راوی ہوں ۔ ۔ اسٹوری کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان چینی صدر شی جن پنگ کی دعوت پر سرمائی اولمپکس کی تقریبات میں شرکت کے لیے تین سے پانچ فروری کے دوران بیجنگ کا دورہ کریں گے۔ پر ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق عمران خان کی ملاقات صرف چینی وزیر اعظم سے کروائی جائیگی ۔ صدر شی جن پنگ نہیں ملیں گے ۔ یہاں تک کہ سائیڈ لائن پر بھی ان دونوں کی ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ ۔ دراصل عمران خان کے دورے کا مقصد بیجنگ کے سی پیک اور پاکستان میں چینی کارکنوں کے تحفظ سے متعلق خدشات دور کرنا اور دونوں پڑوسی ممالک کے دیرینہ اوردوستانہ تعلقات کے تاثر کو قائم رکھنے کی کوشش ہے۔ آسان الفاظ میں آپ کہہ سکتے ہیں چینیوں نے عمران خان کو جواب طلبی کے لیے بلایا ہے ۔ کہ بھائی جان ان تین سالوں میں سی پیک پر آپ نے کیا progressکی ہے ۔ اسی لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ گزشتہ کئی دنوں سے کپتان نے ۔۔۔ سی پیک ۔۔۔۔۔۔ سی پیک ۔۔۔کی گردان شروع کی ہوئی ہے ۔ ۔ جیسے چند روز پہلے عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک سے غربت کے خاتمے اور عام آدمی کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے بھی چین کا ماڈل اپنانا چاہتے ہیں۔

۔ تو پہلے تین سال تک یہ سب کچھ بھولے ہوئے اب دو تین روز پہلے عمران خان کہہ رہے تھے کہ سی پیک پاکستان اور چین کا بہترین مشترکہ منصوبہ ہے ۔ عوام اور ریاستی ادارے سی پیک میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے پرعزم ہیں۔ ۔ آجکل ان کو یہ سب کچھ بہت یاد آرہا ہے ۔ حالانکہ اس دور حکومت میں سی پیک کو عملی طور پر رول بیک کرنے پوری پوری کوشش ہوئی ۔ ۔ صورتحال یہ ہے کہ اب امریکہ نے ہم سے تمام کام کروا لیے ہیں ۔ افغانستان سے وہ بخیر و عافیت نکل چکا ہے اور ہماری ان کو ضرورت نہیں رہی ہے تو انھوں نے تو ہم کو مکمل طور پر جواب دیا ہوا ہے ۔ حالانکہ ہم نے بڑی کوشش کی ۔ کہ جوبائیڈن کم ازکم ہمارے وزیراعظم کو فون ہی کرلے ۔ مگر ہم کو ہمیشہ ٹکا سا ہی جواب ملا ہے ۔ اب کیونکہ ہم کو امریکہ بھی لفٹ نہیں کروا رہا ہے ۔ بھارت کے ساتھ بھی تجارت نہیں شروع ہوپارہی ہے ۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ بھی معاملات کچھ بہتر نہیں۔ بردار اسلامی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات آپ کے سامنے ہیں ۔ تو لے دے کر صرف چین ہی بچتا ہے ۔اسی لیے کپتان اب بچھے بچھے جا رہے ہیں۔

۔ مجھ سے یہ ڈپلومیٹ الفاظ استعمال نہیں ہوتے ۔ سچ یہ ہے کہ عمران خان اب چین معافی مانگنے جارہے ہیں ۔ اور یہ اتنی آسانی سے نہیں ملنی ۔ اب کی بار بیجنگ سے بھی ہم کو ایک لمبی لسٹ ملنی ہے ۔ وہ کہتے ہیں نا ۔۔۔ ہاتھاں نال لائیں گنڈاں داندان نال کھولنیاں پیندی نے ۔۔۔ عمران خان کے دورے کا دوسرا مقصد پاکستان کی طرف سے اسلام آباد اور بیجنگ کے دوستانہ روابط کا تاثر دینا ہے۔ کیونکہ آپ دیکھیں دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں رہ گیا جو ہمارا ساتھ دیتا ہو ۔ چاہے ہمارے بردار اسلامی ممالک کیوں نہ ہوں ۔ واحد چین ہی آخری سہارا رہ گیا ہے ۔ عمران خان نے داسو واقعہ کے بعد اس سرمائی اولمپکس کو ایک موقع کے طور پر بھی دیکھا ہے کہ چین کے ساتھ کھڑا ہوا جائے کیونکہ بہت سے ممالک نے ان اولمپکس کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ۔ جبکہ اس اولمپکس میں اب وزیراعظم پاکستان شرکت کریں گے تو دنیا کے ساتھ ساتھ چین کے اندر بھی پاکستان کی جانب سے ایک اچھا پیغام جائے گا ۔ پر اس سب کے ساتھ عمران خان کے دورے کے دوران چین کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات پر غور ہوگا ۔

۔ اسی سلسلے میں گزشتہ ہفتے وزیر اعظم عمران خان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم سے ملاقات ہوئی ۔ اور لگتا ہے یقیناً اس ملاقات میں بھی چین کی جانب سے سی پیک اور اس کے ورکرز کی سکیورٹی سے متعلق سوالات سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی پر گفتگو ہوئی ہوگی ۔ ۔ عمران خان فوجی قیادت سے علیحدہ ملاقات کے علاوہ وفاقی وزرا اور سی پیک کے متعلقہ حکام سے بھی ملے تھے جنھوں نے وزیر اعظم کو چین کے دورے سے متعلق بریفنگ دی تھی۔ یعنی ادارے ہوں یا دیگر سب ہی عمران خان کو اس حوالے سے بریف کررہے ہیں کیونکہ یہ دورہ بڑا حساس ہے ۔ ایک غلطی پاکستان کو اس کے دیرینہ دوست سے دور کر سکتی ہے ۔ کیونکہ اس دورے کا ایک ہی بنیادی مقصد ہے کہ بیجنگ کا اسلام آباد پر اعتماد کسی طرح بحال ہو جائے۔ ۔ پھر عمران خان کی بیجنگ میں موجودگی کے دوران روسی صدر ولاد میر پیوتن سے بھی ملاقات ممکن ہے۔ یوکرائن کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ حالیہ تناؤکے سبب روس خطے میں اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہے گا اور اس سلسلے میں پاکستان ایک اہم ملک ہے۔ افغانستان کی وجہ سے بھی پاکستان کی اہمیت بنتی ہے اور چین اور روس کے افغانستان میں مفادات موجود ہیں، جن وہ ضرور تحفظ کرنے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔

۔ یوں اگر عمران خان چینی قیادت اور روسی صدر سے ملاقاتوں کے پاکستان کا کیس صحیح طرح اٹھا لیں تو پاکستان کے حق میں بہت بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ پر اگر وہاں جا کر بھی انھوں نے اپنی ملکی سیاست ، اپنا مغرب اور تاریخ بارے علم بتانا شروع کردیا اور وزارت خارجہ کی جانب سے دیے گئے پوائنٹس اور معاملات تک نہ رہے تومعذرت کے ساتھ کامیابی کے امکانات کم ہیں ۔ ۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو اس دورہ کی کامیابی کی اشد ضرورت ہے ۔ کیونکہ پاکستان چین سے 3ارب ڈالر کے قرضے اور چھ شعبوں میں سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔ ۔ یاد رہے چین پہلے ہی کمرشل قرضوں اور فارن ایکسچینج ریزرو سپورٹ اقدامات کی شکل میں پاکستان کو11 ارب ڈالر دے چکا ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کو سعودی عرب سے تین ارب ڈالر قرضہ ملا تھا جو پاکستان خرچ کر چکا ہے۔ سعودی قرضہ ملنے سے پہلے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر15.9ارب ڈالر تھے جو رواں ماہ پھر16ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔۔ وزیراعظم ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ فنانس، ٹریڈ اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں چین سے معاونت کی درخواست کرینگے۔ کل کے روز انکے دورے کا ایجنڈا ترتیب دینے کیلئے حتمی اجلاس ہوگا۔ میرے خیال سے وزیر اعظم جو تجاویز پیش کی جائیں اور جو باتیں بریف کی جائیں اس پر ہی عمل کرنا چاہیئے کیونکہ یہ ہی پاکستان کے لیے بہتر ہوگا ۔ ۔ یہاں اس بات کی نشاندہی کر دوں کہ یہ جو سینیٹر فیصل جاوید خان نے وزیر اعظم عمران خان ، سابق صدر و جنرل پرویز مشرف ، آصف زرداری اور نواز شریف کے بیرون ممالک دوروں پر آنے والے اخراجات کا موازنہ پیش کر دیا ہے ۔ اس موقع پر یہ اس دورے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہا ہے یہ آپکو domestic politicsکے لیے تو شاید فائدہ مند ہو ۔ پاکستان کے لیے کسی صورت فائدہ مند نہیں ۔ اگر انھوں نے موازنہ پیش کرنا ہی ہے تو زرداری ، مشرف ، نواز شریف اور عمران خان کے دوروں کا یہ موازنہ پیش کریں کہ کس نے کیا کیا کامیابی حاصل کی ۔ سچ پوچھیں تو اس میں یقیناً عمران خان کا نام سب سے آخر میں ہی آئے گا ۔۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان میں جو بھی حکمران آیا ہے ڈکیٹیر ہو یا جمہوری ۔۔۔ اس نے بڑی اچھی طریقے سے امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات بحال رکھے ہیں یہ پہلا دور ہے جس میں ہمارے ملک مسائل تو بڑھے ہی ہیں ساتھ ہی خارجہ محاذ پر بھی ہمارے تعلقات خراب ہی ہوئے ہیں ٹھیک نہیں رہے ۔

Leave a reply