نیب ترامیم کیس، سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوئی

سابق وزیراعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان، پی ٹی آئی رہنماوں ، وکلا کی بڑی تعداد سپریم کورٹ میں موجود ہے،عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش کر دیا گیا، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے،جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ ہیں،‏وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ ایڈووکیٹ ، فیصل چودھری ،بیرسٹر علی ظفر بھی موجود ہیں،اظہر صدیق ایڈووکیٹ،نیاز اللہ نیازی ایڈووکیٹ سمیت پی ٹی آئی کے 15 کے قریب وکلاء و رہنما سپریم کورٹ میں موجود ہیں،سینیٹر فیصل جاویدخان ،سابق سینیٹر اعظم سواتی ،سینیٹر شبلی فراز ،رکن قومی اسمبلی علی محمد خان بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں.

عمران خان نے نیلے رنگ کی قمیض زیب تن کر رکھی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر بلا لیا۔‏سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیس پر ہوئی سماعت کا حکم نامہ طلب کرلیا،عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے کہا کہ کیا بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا،خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے فیس نہیں چاہیے،

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی نے دلائل دیئے،‏، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ آپ اصل کیس میں وکیل تھے،آپ کے نہ آنے پر مایوسی تھی، ہم آپ کے موقف کو بھی سننا چاہیں گے، عمران خان مخدوم علی خان کے دلائل سنے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل مخدوم علی سے کہا کہ ‏مخدوم علی خان اونچی آواز میں بولیں تاکہ عمران خان سُن سکیں،وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التواء ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ‏کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں وہ درخواست سماعت کے لیے منظور ہوچکی تھی،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جی وہ درخواست سماعت کےلیے منظور ہوچکی تھی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیخلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لے،

کیس کی سماعت براہ راست نہیں دکھائی جا رہی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا آپ اس کیس میں وکالت کریں گے،خواجہ حارث نے کہا کہ جی میں عدالت کی معاونت کروں گا، عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترمیم کیس پر ہوئی سماعت کا حکم نامہ طلب کر لیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا نیٹ چل رہا ہے؟مخدوم علی خان اونچا بولیں تا کہ عمران خان سن سکیں،

imran supreme

ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسےقابل سماعت ہوا؟چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے استفسار کیا کہ چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا،مخدوم علی خان آپ کیس میں موجود تھے اتنا عرصہ کیوں لگا دیا،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کیس قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست 4جولائی2022کوآئی ،سپریم کورٹ میں 6جولائی 2022کو کو نمبر لگا ،سماعت 19جولائی کو ہوئی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے کہا کہ مرکزی کیس پر اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا تھا،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ 2022کا پورا سال درخواستگزاڑ کے وکیل نے دلائل میں لیے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب کا پورا آرڈیننس بنانے میں کتنا عرصہ لگا تھا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ مشرف نے 12 اکتوبر کو اقتدار سنبھالا اور دسمبر میں آرڈیننس آچکا تھا،مشرف نے دوماہ سے کم عرصے میں پورا آرڈیننس بنا دیا تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسےقابل سماعت ہوا؟کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نے اس سوال کا جواب دیا تھا؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جی ہاں عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکر کیا تھا، مخدوم علی خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ دیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ مرکزی کیس کی کل کتنی سماعتیں ہوئیں؟وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ مرکزی کیس کی مجموعی طور پر 53 سماعتیں ہوئی تھیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا،مخدوم علی خان آپ کیس میں موجود تھے اتنا عرصہ کیوں لگا دیا،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کیس قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ مارش لاء کے فوری بعد ایک ماہ کے اندر نیب قانون بن گیا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ تو بڑا تعجب ہے کہ نیب ترامیم کیس 53 سماعتوں تک چلایا گیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب ترامیم سے متعلق پشاور ہائی کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں کیسز زیر التوا تھے،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے براہ راست ہائیکورٹس میں کیس زیر سماعت ہونے کے باجود الیکشن کیس بھی سنا ،

الیکشن کیس میں تمام بنچ کی رائے تھی نوے روز میں الیکشن ہوں،عدالتی فیصلے کے باوجود عملدرآمد نہیں ہوا، جسٹس اطہرمن اللہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس کیس کا آرڈر آف کورٹ کدھر ہے،جب ایک آرڈر آف کورٹ ہی نہیں تو اسے فیصلہ کیوں کہہ رہے ہیں، وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ میں پھر اسے سات جج کی رائے کہوں گا، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا بنچ دوبارہ تشکیل دیا گیا تھا، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے براہ راست درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سوال آئینی تشریح سے متعلق ہے،اگر ایک جج اپنی رائے دے تو وہ دوبارہ کیسے بنچ میں رہ سکتا ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 2023میں الیکشن کیس میں ایسی ہی وجوہات پر ہم دو ججز نے ناقابل سماعت کردیا تھا،ہم نے کہا تھا جو کیس ہاٸیکورٹ میں زیر التوا ہے اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے،اگر تب لاہور ہاٸیکورٹ کے فیصلے پر عمل ہوتا تو الیکشن بروقت ہو جاتے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بنچ سے الگ ہوجانا الگ معاملہ ہے،اگر پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ بھی کہہ دیا جائے تب بھی یہ سوال ہے کہ آرڈر آف دی کورٹ کہاں ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن کیس میں تمام بنچ کی رائے تھی نوے روز میں الیکشن ہوں،عدالتی فیصلے کے باوجود عملدرآمد نہیں ہوا، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ ہائیکورٹ میں کیس زیر التو ہونے کے باجود سپریم کورٹ براہ راست کیس سننے پر ججز میں اختلاف آیا،

دوران سماعت عمران خان نے ورزش کے انداز میں سر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر سٹریچنگ کی،بازوؤں کو ورزش کے انداز میں ہلایا اور گردن کو دائیں بائیں حرکت دیتے رہے،عمران خان نے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں کو پاس بلا لیا اور اپنے چہرے پر تیز روشنی پڑنے کی شکایت کی کہ اسکو سہی کرو جس پر اہلکاروں نے فوراً لائٹ کو ایڈجسٹ کر دیا

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے مکالمہ کیا اور کہا کہ آپ جب میرے ساتھ بینچ میں بیٹھے ہم نے تو 12 دن میں الیکشن کروادیے،آپ جس بینچ کی بات کررہے ہیں اس میں خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میں نہیں تھا، کیا چیف جسٹس کسی بھی جج کو بنچ سے الگ کرسکتا ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سات رکنی بنچ نے کہا نوے دونوں میں الیکشن ہوں مگر نہیں ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری سربراہی میں تین رکنی بینچ نے صرف بارہ دونوں میں الیکشن کرانے کا فیصلہ دیا،پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا ہم نے آرڈر آف دی کورٹ دیا،

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے عدالتی کارروائی لائیو نہ ہونے کا نکتہ اٹھا دیا، ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ عدالتی کاروائی براہ راست نشر نہیں ہو رہی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایڈوکیٹ جنرل کے پی کو اپنی جگہ پر بیٹھنے کی ہدایت کر دی

ایسے پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کریں، ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے،چیف جسٹس
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کیس جیسے مختلف فیصلے بھی موجود ہیں،ہائی کورٹ میں زیرسماعت درخواست سپریم کورٹ نہیں سن سکتی، نیب ترامیم کیس بھی سپریم کورٹ میں قابل سماعت نہیں تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہ عدالت میں سرگوشیوں پر اظہار برہمی کیا اور کہا کہ جس نے باتیں کرنی ہیں کمرہ عدالت سے باہر چلا جائے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نفاذ کب سے ہوا؟ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد نیب ترامیم کی کتنی سماعتیں ہوئیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد کئی سماعتیں ہوئیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا،پریکٹس اینڈ پروسیجر معطل کرنا درست تھایا غلط مگر بہر حال اس عدالت کے حکم سے معطل تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک قانون کو معطل کرنے پھر اس کیس کو سناہی نہ جائے تو ملک کیسے ترقی کرے گا ،آپ کو قانون پسند نہیں تو پورا کیس سن کر کالعدم کردیں ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بل کی سطح پر قانون کو معطل کرنا کیا پارلیمانی کارروائی معطل کرنے کے مترادف نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسے پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کریں، ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے،ہم کب تک خود کو پاگل بناتے رہیں گے،

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اچھا تھا یا برا تھا لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو عدالت نے معطل کر رکھا تھا، ایکٹ معطل ہونے کے سبب کمیٹی کا وجود نہیں تھا،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بنچ کے ایک رکن منصور علی شاہ نے رائے دی کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کو طے کیے بغیر نیب کیس پر کارروائی آگے نہ بڑھائی جائے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون درست نہیں ہے تو اسے کلعدم قرار دے دیں،اگر قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا،ہم کب تک اس بے وقوفانہ دور میں رہتے رہیں گے،اگر مجھے کوئی قانون پسند نہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کمرہ عدالت میں درخواست گزار موجود ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے کہا کہ لیکن پہلے مخدوم علی خان کو سن لیتے ہیں۔ اس کے بعد ان کو سن لیں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے وکیل مخدوم علی سے سوال کیا کہ مخدوم علی خان ابھی کتنا وقت دلائل دینگے، مخدوم علی خان نے کہا کہ مجھے ابھی وقت لگے گا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اپیل متاثرہ فریق دائر کر سکتا ہے اور وہ کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے،حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟پریکٹس ایند پروسیجر کے تحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صرف متاثرہ شخص نہیں قانون کہتا ہے متاثرہ فریق بھی لاسکتا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ دو تشریحات ہو سکتی ہیں کہ اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق تک محدود کیا گیا،متاثرہ فریق میں پھر بل پاس کرنے والے حکومتی بنچ کے ممبران بھی آسکتے ہیں،

آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں،کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں۔چیف جسٹس
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں وزیراعظم خود آرڈیننس جاری کرواتے رہے، پی ٹی آئی ارکان نے پارلیمنٹ میں نیب ترامیم کی مخالفت نہیں کی تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ اس حکومت کے سیاست دانوں کو مجرم ٹھہرا رہے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے کہا کہ آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں۔آرڈیننس کے زریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں۔کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں۔ کیا آرڈینس کے ساتھ تو صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پارلیمان کو مضبوط بنانا سیاستدانوں کا ہی کام ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگلے ہفتے بنچ دستیاب نہیں ہوں گے، عمران خان کی موجودگی آئندہ سماعت پر بھی ہوگی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے عمران خان کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم عمران خان سے مخدوم علی خان کے سوالوں کے جواب لیں گے، عمران خان یہ نکات نوٹ کر لیں، عمران خان بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیے

سابق چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان آج کی سماعت میں دلائل نہ دے سکے ،مخدوم علی خان کے دلائل جاری ، سپریم کورٹ کو بتایا کہ انہیں دلائل کے لئے مزید کچھ گھنٹے درکارہونگے، نیب ترامیم کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی.

سپریم کورٹ، عمران خان کی تصویر لیک ہونے پر تحقیقات شروع،پولیس کی دوڑیں
سپریم کورٹ انتظامیہ نے عمران خان کی تصویر وائرل ہونے پر تحقیقات شروع کردیں،پولیس نے انتظامیہ اسٹاف کو سی سی ٹی وی کیمرے دیکھ کر تصویر وائرل کرنے والے کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کر دی،پولیس تصویر کو وائرل کرنے والے کے خلاف ایکشن لے گی،تصویر کورٹ روم رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لی گئی،عمران خان کی کمرہ عدالت سے تصویر وائرل ہونے پر سپریم کورٹ میں دوڑیں لگ گئیں ،عدالتی عملہ اور پولیس پتا لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تصویر کس نے کھینچی ہے ،عمران خان کی کمرہ عدالت میں تصویر بنانے والے کی تلاش شروع کردی گئی،کمرہ عدالت میں نصب بڑی سکرین سے عمران خان کی تصویر چند لمحوں کیلئے ہٹا دی گئی تھی پھر دوبارہ لگا دی گئی،سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر ون جانے والے افراد کی چیکنگ مزید سخت کر دی گئی،بانی پی ٹی آئی کی تصویر کمرہ عدالت کے بائیں جانب بیٹھے افراد میں سے کسی نے بنائی، کمرہ عدالت کی بائیں جانب موجود افراد سے پوچھ گچھ شروع کر دی گئی،کمرہ عدالت میں جانے والے افراد کی تلاشی میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔

نیب ترامیم کیس میں کمرہ عدالت سے بانی پی ٹی آئی کی تصویر وائرل ہونے کا معاملہ ،شوکت بسرا کا تصویر لیک ہونے کے حوالے سے کہنا ہے کہ میں نے کوئی تصویر لیک نہیں کی، بانی پی ٹی آئی کی تصویر میں نے نہیں بنائی ، سوشل میڈیا پر میرے خلاف پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے،اگر میں نے تصویر بنائی ہوتی تو میں اسے تسلیم کرتا ،

سپریم کورٹ میں سیکورٹی سخت،موبائل فون لے جانے پر پابندی
سپریم کورٹ نے کورٹ رپورٹر، صحافی ، اینکر پرسن اور کسی بھی فرد کو کورٹ میں موبائل فون لے جانے سے منع کر دیا تاکہ کوئی کیمرے سے بھی عمران خان کی تصویر نہ بنا سکے، اس موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں،سپریم کورٹ میں آج عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کے انتظامات مکمل کیے گئے تھے، جیل ذرائع کے مطابق اڈیالہ جیل انتظامیہ نے بانی پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی سے متعلق آگاہ کردیا گیا تھا، سپریم کورٹ کے عملے اور جیل اتھارٹیز کے مابین ویڈیو لنک کے کونیکشن بارے رابطہ بھی کیا گیا ہے، بانی پی ٹی آئی کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کیا گیا ہے

نواز شریف جیل میں قید تھے انہیں مچھر کاٹنے کی شکایت پر بلایا گیا،بابر اعوان
تحریک انصاف کے رہنما بابر اعوان کا کہنا ہے کہ بانی چئیرمین کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے، ذوالفقار علی بھٹو شہید کو عدالتی قتل کے بعد یہاں سنا گیا، نواز شریف جیل میں قید تھے انہیں مچھر کاٹنے کی شکایت پر بلایا گیا، آئین کے آرٹیکل 10 کے مطابق فئیر ٹرائل کا حق دیا جائے،

تحریک انصاف کے رہنما فیصل جاوید بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے، فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ عمران خان کی سپریم کورٹ کی آج کی سماعت بھی لائیو نشر ہونی چاہیئے،

واضح رہے کہ عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں، انہیں سائفر کیس، توشہ خانہ کیس اور دوران عدت نکاح کیس میں سزا ہوئی تھی، توشہ خانہ کیس کی سزا اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر رکھی ہے تا ہم سائفر اور دوران عدت نکاح کیس میں سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت ہو رہی ہے، عمران خان کی گزشتہ روز القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت ہوئی ہے، عمران خان کو نومئی کے مقدمات میں بھی گرفتار کیا گیا ہے، بشریٰ بی بی کو دوران عدت نکاح کیس میں سزا ہوئی ہے اور وہ اڈیالہ جیل میں ہیں، عمران خان کو مقامی عدالتوں نے پیشی کا حکم دیا تھا تاہم کسی بھی عدالت میں عمران خان کو پیش نہیں کیا گیا، بلکہ عمران خان کے مقدمات کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہو رہی ہے، اب سپریم کورٹ نے عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی ہدایت کی تھی.

عمران خان کی سزاؤں کے حوالے سے سکرپٹ لکھا ہوا ہے،علیمہ خان
عمران خان کی بہن علیمہ خان نے سپریم کورٹ آمد پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو اِنہوں نے نہیں دکھانا اس وقت تک عمران خان کو جیل میں رکھیں گے جب تک سارے آپشنز ختم نہیں ہوتے ججز بھی پریشان ہیں کہ کیسے فیصلہ کریں،عمران خان کو القادر میں رہا کرنے کا حکم دیا تو کارکنان نے خوشی کا اظہار کیا،عمران خان کی سزاؤں کے حوالے سے سکرپٹ لکھا ہوا ہے، یہ اب بھی چاہتے ہیں کہ القادر کیس میں سزا دے دی جائے، عدت کیس میں کچھ بھی نہیں پھر بھی اسے گھسیٹا جا رہا ، بشری بی بی کے حوالے سے ان کی بیٹیوں نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر بیان دیا ہے، اس کیس پر سزا دینے والے جج کو بھی شرمندگی محسوس ہورہی ہو گی، اس وقت ججز بھی پریشان ہیں انہیں بھی سمجھ نہیں آ رہی کیسے فیصلے کریں، ہم اپنی عدلیہ سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی امید رکھتے ہیں،عمران خان نے کہا کہ اپنے تمام مقدمات کا سامنا کروں گا،اب عدلیہ پر ہے عمران خان کو کیسے انصاف دیں گے، بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے کیسز میں ججز اب چھٹی پر چلے جائیں گے

Shares: