القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا سنانے والے جج کے خلاف پی ٹی آئی نے پروپیگنڈہ شروع کر دیا وہیں، اسلام آباد سے سینئر صحافی و اینکر پرسن حامد میر نے بھی ایکس پر پوسٹ کی ہے
حامد میر کا کہنا تھا کہ یہ 2004 میں جج ناصر جاوید رانا کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے سول جج ناصر جاوید رانا کے خلاف سوموٹو ایکشن لیا اور ان کے عدالتی اختیارات واپس لے لیے گئے۔ انہیں جوڈیشل سروس کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا لیکن اسی جج کو دوبارہ ملازمت پر رکھا گیا۔
پی ٹی آئی کا جج کے خلاف پروپیگنڈہ اور حامد میر کی پوسٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،عمران خان کو سزا سنانے والے جج ناصر جاوید رانا عدلیہ کے ایک قابل احترام جج ہیں جنہوں نے 2004 میں راولپنڈی میں سول جج کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں، ان کے بارے میں کچھ سال قبل سپریم کورٹ کی طرف سے شروع کی گئی انکوائری کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ انکوائری میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے وکیل وہاب خیری کے مقدمے میں جسمانی ریمانڈ کے لیے ملزم کو عدالت میں پیش کیے بغیر ریمانڈ دیا تھا۔ تاہم، انکوائری کے دوران جج کی معطلی کے باوجود، انہوں نے اپیل میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے جوڈیشل سروس ٹریبونل سے تمام مراعات کے ساتھ دوبارہ بحالی حاصل کی تھی۔
اس کے بعد جج ناصر جاوید رانا کو لاہور میں سول جج کے طور پر تعینات کیا گیا اور انہوں نے پنجاب کے مختلف اضلاع میں کامیابی سے اپنی خدمات انجام دیں۔ 2014 میں انہیں سینئر سول جج کے طور پر ترقی دی گئی اور 2015 میں ایڈیشنل سیشن جج کے طور پر ترقی ملی۔ 2019 میں انہیں اسلام آباد ویسٹ کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے طور پر تعینات کیا گیا اور 2021 میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے طور پرتعیناتی کی گئی۔ اس کے بعد جج ناصر جاوید رانا نے اسلام آباد ویسٹ اور اسلام آباد ایسٹ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے طور پر کامیابی کے ساتھ خدمات انجام دیں اور اب وہ نیب کے جج کے طور پر کام کر رہے ہیں۔جج ناصر جاوید رانا کی عدلیہ میں خدمات کی مدت 27 سال ہے، جس دوران انہوں نے تقریباً 35 ضلعی ججز کے تحت کام کیا، اور ان کے خلاف نہ تو کوئی کرپشن کا الزام عائد ہوا اور نہ ہی ان کی کارکردگی پر کبھی کوئی منفی رپورٹ درج کی گئی۔ ان کے خلاف 2004 کی انکوائری کا موجودہ مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جج ناصر جاوید رانا کی زندگی کی یہ تفصیلات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ عدلیہ کے وقار کو بلند رکھا اور اپنے فیصلوں میں مکمل دیانتداری کا مظاہرہ کیا۔
جج ناصر جاوید رانا نے ہزاروں مقدمات کا فیصلہ کیا اور ہمیشہ میرٹ پر قانون کے مطابق دیا۔ اب عمران اور بشریٰ کو سزا سنائی گئی تو عمران خان اور ان کے وکلاء نے ان کے فیصلے پر تنقید کی اور جھوٹا پروپیگنڈہ شروع کیا تو ان کا مقصد صرف اپنے ناپاک عزائم کو آگے بڑھانا تھا، اسکے باوجود کہ جج ناصر جاوید رانا کا فیصلہ ہمیشہ حق و انصاف پر مبنی رہا۔
پاکستان کے عدالتی نظام میں جج ناصر جاوید رانا کے بارے میں جو پراپیگنڈا اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں، ان کے پس منظر میں کئی اہم حقائق پوشیدہ ہیں۔ خاص طور پر ان نام نہاد صحافیوں کے لیے جو اس معاملے پر منفی بیانیہ پھیلا رہے ہیں، یہ ضروری ہے کہ حقیقت سامنے آئیں تاکہ صحیح صورتِ حال واضح ہو سکے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے۔ جب جج رانا کے خلاف الزامات لگائے گئے، تو لاہور ہائی کورٹ کو تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم، اس معاملے میں جج رانا کے حق میں تمام کورٹ کے عملے نے affidavits جمع کرائے، جن میں یہ کہا گیا کہ جج رانا کسی بھی غلط کام میں ملوث نہیں ہیں، بلکہ وہ بالکل صحیح ہیں۔ اس کے باوجود، سیاسی دباؤ کی وجہ سے، کمزور چیف جسٹس نے بغیر کسی ثبوت اور ٹرائل کے لاہور ہائی کورٹ کو کارروائی کا حکم دیا۔
جب جج رانا ایک جونیئر جج تھے، تو انہوں نے سپریم کورٹ کی طرف سے کی جانے والی سوموٹو کارروائی میں کسی بھی قسم کے دباؤ کو مسترد کیا، اس کے بعد معاملہ لاہور ہائی کورٹ کے حوالے کیا گیا، جہاں جج رانا کے حق میں فیصلہ آیا اور وہ اپنے عہدے پر بحال ہوئے۔
ایک اور اہم حقیقت یہ ہے کہ جناب ناظم حسین اگر جسٹس راشد عزیز خان کو راستے سے نہ ہٹاتے تو شاید وہ خود کبھی چیف جسٹس نہ بن پاتے۔ ان کی جانب سے برادر جسٹس راشد کے بارے میں ایسے ریمارکس دئیے گئے تاکہ ان کا کیریئر ختم ہو سکے اور ناظم حسین صدیقی کے چیف جسٹس بننے کا راستہ ہموار ہو۔ اس بات کو ریکارڈ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اگر جج رانا لاہور ہائی کورٹ کی انکوائری میں قصوروار پائے جاتے تو انہیں فوری طور پر نوکری سے فارغ کر دیا جاتا۔ تاہم، جج رانا نے اپیل کے ذریعے اپنے آپ کو ثابت کیا اور یہ ثابت کیا کہ وہ کسی بھی غلط کام میں ملوث نہیں ہیں۔ اس طرح وہ اپنی نوکری پر قائم رہے اور ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔
پی ٹی آئی نے ہمیشہ سچ اور حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا بیانیہ بنایا اور پھیلایا۔ اس بیانیہ کی حقیقت یہ ہے کہ جج رانا کو جب پی ٹی آئی کی حکومت میں نوکری سے فارغ نہیں کیا گیا، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ان پر واقعی کوئی الزام تھا، تو انہیں 2019 میں اسلام آباد کیوں پوسٹ کیا گیا؟ اگر جج رانا کی سروس میں کوئی مسئلہ تھا تو انہیں کیوں نہیں نکالا گیا؟
ان تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ جج ناصر جاوید رانا کے بارے میں جو پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے، وہ حقیقت سے بعید ہے۔ انہیں سیاسی دباؤ کے باوجود اپنی خدمات میں تسلسل ملا اور انہوں نے کسی بھی قسم کے غیر قانونی عمل سے خود کو دور رکھا۔ ان کی سروس اور ان کے فیصلے ان کے کردار کو سچائی کے آئینے میں ثابت کرتے ہیں۔
سیف علی خان چاقو حملہ کیس،مشتبہ شخص چھتیس گڑھ میں گرفتار
ہر کسی کا ذریعہ آمدن ہوتا ہے عمران خان کا ذریعہ آمدن بتادیں ،عطاتارڑ