ایرک ہابز بام تحریر : اقصٰی صدیق

0
53

اکتوبر 2012 ء میں تاریخ نویسی کا ایک بہت بڑا نام ایرک ہابز بام اس دنیا سے گزر گئے۔ہابز بام 1917ء میں مصر میں پیدا ہوئے، ان کا بچپن آسٹریا اور جرمنی میں گزرا۔ ان کے والدین یہودی تھے اور بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ایرک ہابز بام نے پچانوے برس عمر پائی۔
یہ برطانوی مؤرخ بیسویں صدی کی تاریخ نویسی پر چھائے ہوئے ہیں۔ اور دنیا کی اعلیٰ ترین جامعات میں ابھی بھی تاریخ کا کوئی نصاب ان کی کتابوں اور مضامین کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاتا۔
1930 ء میں جب جرمنی میں ہٹلر کی آمریت کا آغاز ہوا تو ہابز بام اپنے چچا کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے۔ جہاں انہوں نے تعلیم میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیمرج یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے وظیفہ حاصل کیا اور وہی ان کے علمی سفر کا شاندار آغاز ثابت ہوا۔
ہابز بام نے تقریباً ایک صدی پر محیط اپنی زندگی میں میں ہونے والے واقعات پر نہ صرف بہت گہری نظر رکھی، بلکہ بہت کچھ لکھا۔ اور ان کی موت کے وقت ان کے بستر پر موجود واحد چیز اخبارات تھے جن سے وہ حالات سے آگاہ رہتے تھے۔

ایرک ہابز بام کی تاریخ نویسی کی خاص بات یہ ہے، کہ وہ حال کی سیاست اور معیشت کو ماضی کے اسباق کی روشنی میں بڑے دلچسپ انداز سے بیان کرتے تھے آخری دنوں میں دیے جانے والے ایک انٹرویو میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مغربی بنگال میں سی پی ایم حکومت کی فتح پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تاریخی سوالات پر سیدھا جواب دینا پسند نہیں کرتے تھے بلکہ بہت سارے پہلوؤں کا احاطہ کرنے پر زور دیتے۔

انہوں نے تاریخ نویسی کو ایک نئی جہت سے روشناس کروایا۔جس کی خاص بات سماجی اور ثقافتی تاریخ پر بہت زیادہ زور دیا جانا تھا۔
ایرک ہابز بام نے اپنی تاریخ نویسی کا آغاز اس بات پر غور و خوض سے کیا کہ تاریخ میں سماجی احتجاج کی کونسی پرتیں رہی ہیں وہ صرف اس بات سے قائل نہیں ہوتے تھے کہ کوئی ایک محرّک مثلاً مذہب، معیشت یا روایات لوگوں کو احتجاج پر مجبور کرتی ہیں۔ سماجی احتجاج کی تاریخ میں مختلف مثالوں کو کریدنے کے بعد انہوں نے اس موضوع پر بھی بہت کچھ لکھا۔ کہ کس طرح سماج میں مختلف طبقات کس طرح روایات گھڑتے ہیں اور کیسے ان” گھڑی ہوئی روایات” کو اجتماعی یادداشت کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔

ان کے مطابق روایات گھڑنے میں عوام سے زیادہ ریاست یا قوم پرست اور فرقہ پرست عناصر اپنا کردار ادا کرتے ہیں ان کی مشہور ترین کتاب” یورپ کا عہدِ انقلاب” تھی
۔جس میں انہوں نے 1789ء کے انقلاب فرانس سے 1848ء کے یورپی انقلابات کا احاطہ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے انیسویں اور بیسویں صدی کی تعریف پر بیش بہا کتابیں لکھیں۔ ہابز بام کا کہنا تھا کہ قوموں کے ارتقاء اور قوم پرستی کی تاریخ کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے خود کو لگی بندھی تعریفوں سے دور رکھنا ضروری ہے، کیونکہ” قوم” بذات خود ایک گمراہ کن تصور ہے جسے ریاست اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے۔
اور قوم پرست اپنے مقاصد کے لیے اور دونوں صورتوں میں یہ تنگ نظری کا باعث بنتا ہے، لوگوں کا کوئی بھی گروہ جمع ہوکر خود کو” قوم” کہلوانا شروع کر دیتا ہے یا ریاست۔

ایرک ہابز بام کا کہنا تھا کہ قوم کا تصور اور قوم پرستی کے مبلغ ہی پروان چڑھاتے ہیں اور قوموں کی تشکیل میں سوشل انجینئرنگ یا سماجی کارگری کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ قوم کوئی فطری یا خداداد اکائی نہیں۔ جس طرح اچھی یا بری اکائیاں تشکیل دی جاتی ہیں اسی طرح قوموں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ جسے ریاستیں اپنے طریقے سے اور قوم پرست عناصر اپنے انداز سے پختہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے مختلف سچی جھوٹی روایات کااستعمال کیا جاتا ہے۔

ایرک ہابز بام کہتے ہیں کہ قوموں کو سمجھنے کے لئے صرف سیاسی تاریخ نہیں، بلکہ سماج، معیشت، نفسیات اور ثقافت وغیرہ کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ہابز بام کے تجزیے میں قوموں کی تشکیل کے تین مرحلے ہیں۔
پہلے مرحلے میں جو ہزاروں سال پر محیط ہو سکتا ہے صرف ایک لوک صحافت ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ ادبی شکل اختیار کر لیتی ہے مگر اس کی کوئی سیاسی یا کوئی قومی شکل نہیں ہوتی، بس لوگ ساتھ رہے ہوتے ہیں اور مشترکہ ناچ گانے اور کہانیاں پروان چڑھا رہے ہوتے ہیں۔

جبکہ دوسرے مرحلے میں چند قوم پرست نمودار ہونے لگتے ہیں، جو دیگر اقوام کی بالادستی کی نشاندہی کرتے ہیں جو بڑی حد تک درست بھی ہوتی ہے مگر اس کا نتیجہ بالادست قوم کے حکمرانوں کے بجائے اس کی قوم کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
تیسرے مرحلے میں اس "قومی تصور”کو عوامی حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔
اور چند جنگجو قوم کے ترجمان بن بیٹھے ہیں، ہابز بام کا کہنا تھا کہ سنجیدہ مورخ خود کبھی بھی قوم پرست نہیں ہو سکتا، کیوں کہ کسی بھی فرقہ پرست کی طرح کوئی قوم پرست صحیح تاریخ نہیں لکھ سکتا۔کوئی قوم اس وقت تک قوم نہیں بن سکتی جب تک کہ وہ تاریخ کو توڑ مروڑ کر مسخ نہ کر دے۔
جبکہ کہ اچھے مورخ کا بنیادی کام ہی یہ ہے کہ وہ تاریخ کو مسخ ہونے سے بچائے۔ ہابز بام ایک عظیم مورخ اور سماجی تجزیہ نگار تھے۔جن کی تحریروں سے نہ صرف یورپ بلکہ دیگر علاقوں کے سماجی ارتقاء کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ کاش! ہمارے سیاستدان فوجی اور افسر شاہی سے تعلق رکھنے والے مجھے خود ساختہ تجزیہ نگار بھی ایرک ہابز بام کی کتابیں پڑھ کر کچھ سمجھنے کی کوشش کریں۔

@_aqsasiddique

Leave a reply