اسلامی شرعی فلم — شہنیلہ بیلگم والا

0
50

حمزہ عباسی کے اس بیان کے بعد میرے ذہن میں فلم کا جو خاکہ بنا ہے وہ کچھ یوں ہے؛

صبح صبح نور ویلے ہیرو کے کمرے کا سین دکھایا جاتا ہے جہاں ہیرو فجر کی نماز کی تیاری میں مشغول ہے. ہیرو کی گھنی داڑھی سے وضو کے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں. ہیرو نے چٹا سفید جوڑا پایا ہے. مسجد جانے سے پہلے ہیرو سر پہ عمامہ باندھنا ہرگز نہیں بھولا.

مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد مولوی صاحب کا بیان سنا جس میں ملک کے بدترین حالات کا زمہ دار فحاشی کو ٹھہرایا گیا تھا. خاص طور پر ان خواتین کو جہنمی قرار دیا گیا تھا جو جینز پہن کر ملک میں سیلاب لانے کی زمہ دار ہیں.

بیان سننے کے بعد ہیرو وہیں اذکار اور تلاوت میں مشغول ہوگیا اور پھر اشراق کی نماز ادا کر کے گھر کی طرف روانہ ہوا.

گھر پہنچ کر والدہ کے ہاتھ کا ناشتہ تناول فرمایا. چونکہ اسلامی فلم ہے اس لیے والدہ نے سارا ناشتہ ٹوپی برقع پہن کر سرو کیا. چونکہ آواز کا بھی پردہ ہوتا ہے اس لیے والدہ نے دعا دینے کے بجائے سر پہ ہاتھ پھیرنے پر اکتفا کیا.

ناشتہ کرنے کے بعد ہیرو اپنے مدرسے روانہ ہوگیا جہاں وہ بچوں کو انتہائی شفقت اور محبت سے قرآن حفظ کرواتا تھا. عصر کی نماز سے فارغ ہو کر ہیرو گھر پہنچا، جہاں اس کے والد اور بڑے بھائی دو بزرگوں کے ساتھ تشریف فرما تھے. ہیرو جب سلام کر کے ان کے پاس بیٹھا تو پتا چلا کہ قاری عبدالقدوس کی دختر کا رشتہ ہیرو کے ساتھ کرنے کا ارادہ ہے. دونوں گھرانوں کے بزرگوں نے استخارا ادا کر لیا ہے. ہیرو کے گھر کی خواتین بنت عبدالقدوس کو دیکھ آئی ہیں. لیکن چونکہ اسلامی فلم ہے اس لیے ہیروئین کی جھلک بھی نہیں دکھائی جا سکتی. فلم بین قاری عبدالقدوس اور اس کے بیٹوں کو دیکھ کر امیجن کرلیں کہ ان کی بیٹی اور بہن کیسی لگتی ہوگی ( داڑھی ہٹا کر).

فلم اسلامی ہی سہی لیکن ہیرو کے تو جذبات ہیں. رات عشاء کی نماز کے بعد بیان سننے میں بھی ہیرو کا دل نہیں لگ رہا تھا. بار بار قاری عبدالقدوس اور اس کے بیٹوں کے چہرے نگاہوں کے سامنے گھوم رہے تھے. ہیرو نے ذہن کو بٹانے کے لیے سائیڈ ٹیبل پہ پڑی کتب سے ” رفع الیدین حنفی علماء کرام کی نظر میں” پڑھنے کے لیے اٹھا لی. اس کے بعد نیند نہ آنے کی صورت میں ” ٹخنے کھلے رکھنے کی تحدید” بھی پڑھنے کا ارادہ کرلیا کہ نیت کا بھی ثواب ہے.

Leave a reply