اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے دورہ امریکہ کے دوران اسرائیلی میڈیا کو ایک انٹرویو میں فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں غیر روایتی اور متنازعہ بیان دیا ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ 2 ریاستی حل فلسطین کے مسئلے کا حل نہیں ہے، بلکہ یہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ ان کے مطابق، سعودی عرب کے پاس وسیع اراضی موجود ہیں، اور وہ وہاں فلسطینی ریاست قائم کر سکتے ہیں۔نیتن یاہو نے اپنے موقف میں مزید کہا کہ فلسطینیوں کے پاس پہلے ایک ریاست تھی جسے غزہ کہا جاتا ہے، جو کہ حماس کے زیر قبضہ ہے، اور 7 اکتوبر کو وہاں کیا ہوا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کے لیے خطرناک ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے امکانات کے بارے میں کہا کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان امن جلد قائم ہو جائے گا۔
اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان پر مصر نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ مصر نے کہا ہے کہ یہ اسرائیلی بیان سعودی عرب کی خودمختاری کے خلاف ہے اور سعودی عرب کی سلامتی مصر کی "ریڈ لائن” ہے۔ مصر کے مطابق سعودی عرب کا موقف فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی معمول پر لانے کا نہیں ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے معمول پر آنے کے بارے میں اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ سعودی عرب کا موقف ہمیشہ مضبوط اور غیر متزلزل رہا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام اس کے لیے سب سے اہم مسئلہ ہے۔
قبل ازیں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلے گا، جس سے علاقے میں استحکام لانے اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی امید ہے۔ اس بیان پر عالمی برادری میں غم و غصہ پایا گیا، اور اقوام متحدہ سمیت مختلف ممالک نے اس کی مخالفت کی۔
سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے ٹرمپ کے بیان پر سخت ردعمل دیا ہے۔ انہوں نے ٹرمپ کو ایک خط لکھا جس میں کہا کہ فلسطینی عوام غیر قانونی تارکین وطن نہیں ہیں، جنہیں بے دخل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کرنا ہے تو انہیں ان کے آبا اجداد کے علاقوں میں بھیجا جائے جہاں وہ پہلے آباد تھے، جیسے جافا، حیفہ اور دیگر علاقے۔شہزادہ ترکی الفیصل نے خط میں مزید کہا کہ فلسطینیوں کے حقوق اور ان کی زمینیں ان کے حق میں ہیں، اور وہ دوبارہ اپنی تباہ شدہ جائیدادوں کو تعمیر کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غزہ کے بیشتر لوگ پناہ گزین ہیں جنہیں 1948 اور 1967 کی جنگوں میں اسرائیل نے بے دخل کیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینیوں کو ان کا حق خود ارادیت اور ریاست دینے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کیا جائے۔
اس وقت فلسطین اور اسرائیل کے تعلقات میں شدید کشیدگی ہے، اور عالمی سطح پر اس معاملے کے حل کے لیے مختلف تجاویز سامنے آ رہی ہیں۔ اس صورتحال میں سعودی عرب کا موقف اہمیت اختیار کر چکا ہے، کیونکہ اس کا کردار فلسطین کے معاملے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔