الیکشن میں تاخیر،جماعت اسلامی کا سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ

عام انتخابات میں تاخیر آئین کے آرٹیکل 224 کی خلاف ورزی ہے
supreme court01

اسلام آباد: جماعت اسلامی نے الیکشن میں تاخیر پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنےکا فیصلہ کیا ہے۔

باغی ٹی وی: جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ اور سابق ایم این اے عبد الاکبر چترالی نے درخواست تیار کرلی ہے، جسٹس ریٹائرڈ غلام محی الدین کے توسط سے سپریم کورٹ میں اگلے ہفتے درخواست دائر کی جائےگی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہےکہ نگران وفاقی حکومت کی جانب سے عام انتخابات میں تاخیر آئین کے آرٹیکل 224 کی خلاف ورزی ہے،اسمبلی تحلیل کے بعد 60 سے 90 دن کے اندر انتخابات منعقد کروانا آئین کے آرٹیکل 224 میں واضح ہے لیکن مشترکہ مفادات کونسل کے نمائندوں اور نگران وزرائے اعلیٰ کے درمیان اجلاس کو بنیاد بنا کر الیکشن میں تاخیر کی جارہی ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیاگیا ہےکہ مشترکہ مفادات کونسل کےاجلاس میں دو وزرائےاعلیٰ نےاپنےنگران حکومت کےپہلے دورانیےکو مکمل کیا ہے اب ان حکومتوں کی حیثیت غیر قانونی اور غیر آئینی ہے عدالت الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 ٹو کے تحت جنرل الیکشن کا اعلامیہ جاری کرنےکا حکم دے اور 90 دن کے اندر انتخابات منعقد کرنےکے لیے الیکشن کمیشن کو احکامات جاری کرے-

چیئرمین پی ٹی آئی کو پنجاب میں الیکشن میں دلچسپی نہیں تھی،پرویز خٹک

واضح رہے کہ قبل ازیں پیپلز پارٹی نے بھی انتخابات میں 90 روز سےزیادہ کی تاخیر کی کھل کر مخالفت کی تھی،پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیوں کے بعد ان کے خلاف اپیلیں ہوئیں تو سال ڈیڑھ سال انہی چکروں میں پڑے رہیں گے، اس لیے الیکشن 90 روز کے اندر اندر ہونے چاہئیں، آئین میں 90 دن کا ذکر ہے، حلقہ بندیوں کا ذکر نہیں، اسمبلیوں کی نشستیں بھی نہیں بڑھائی جا رہیں،انہی حلقوں کی حدود کو کم زیادہ کرنا ہے، یہ کام کرنا بھی ہے تو 2 ماہ میں مکمل کر لیا جائے، پیپلز پارٹی کا اجلاس بلا کر فیصلہ کریں گے کہ الیکشن میں تاخیر کے خلاف سپریم کورٹ میں جانا ہے یا نہیں۔

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے 12 اگست کو مدت پوری ہونے سے قبل قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری دستخط کرکے صدر کو منظوری کیلئے بھیجی تھی، صدر مملکت نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر 9 اگست کو قومی اسمبلی توڑ دی، انہوں نے اسمبلی آئین کے آرٹیکل 58 (1)کے تحت تحلیل کی۔

سربراہ بی این پی عوامی اور سابق صوبائی وزیر اسد بلوچ کے گھر پر …

اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کمیشن کو آرٹیکل224 ون کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا ہوتا ہے، آئین کے مطابق مدت پوری ہونے سے قبل اگر اسمبلی توڑی جائے تو عام انتخابات 90 روز میں کرانے ہوتے ہیں تاہم اگر نئی مردم شماری ہو تو آئین کے آرٹیکل 15(1)کے سب سیکشن 5کے تحت الیکشن کمیشن پاکستان از سر نو حلقہ بندیاں کرانے کا قانونی طو رپر پابند ہے۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ عام انتخابات 90 دن میں نہیں ہو سکتےالیکشن کمیشن نے ملک بھر میں نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرنےکا فیصلہ کیا اور حلقہ بندیوں کے لیے 4 ماہ کا وقت مختص کردیا،حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت 14دسمبرکو کی جائےگی، ملک بھر میں8 ستمبر سے7 اکتوبر تک حلقہ بندیاں کی جائیں گی، اکتوبر سے 8 نومبر تک حلقہ بندیوں سے متعلق تجاویز دی جائیں گی، 5 ستمبرسے7 ستمبر تک قومی وصوبائی اسمبلیوں کا حلقہ بندیوں کا کوٹہ مختص کیا جائےگا، حلقہ بندیوں سےمتعلق انتظامی امور 31 اگست تک مکمل کیے جائیں گے۔

لائیو نشریات کے دوران بی بی سی اینکر کی زبان پھسل گئی

Comments are closed.