خیبر پختونخواہ بدانتظامی،کرپشن کی وجہ سے لاقانونیت کی لپیٹ میں.تحریر:ڈی جے کمال مصطفیٰ

0
119
kp police

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت کرتے ہوئے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، مگر اس کی حکومتی نااہلی اور بدانتظامی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ صوبہ اب بھی مختلف مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی ساری توجہ بیان بازی اور دوسرے صوبوں میں جلسے جلوسوں کے لیے سرکاری وسائل کے استعمال پر مرکوز ہے۔سب سے پہلے اگر امن و امان کا جائزہ لیا جائے تو صوبے کی قانون و ترتیب کی صورتحال بالکل تسلی بخش نہیں ہے، اور اس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے صوبائی پولیس اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ آج ایک افسوسناک واقعہ سوات کے سیاحتی مقام مالم جبہ میں پیش آیا جہاں غیر ملکی سفارت کاروں کی سکیورٹی پر مامور پولیس وین ایک آئی ای ڈی کی زد میں آگئی۔ اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار نے شہادت پائی جبکہ چار دیگر زخمی ہو گئے۔

اس واقعے کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ خیبر پختونخواہ لاقانونیت کا شکار ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس وقت خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت انتہائی نااہل ثابت ہو رہی ہے، اور بیڈ گورننس اور مالی کرپشن کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اسی طرح وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اپنے رویے سے ایک شرپسند شخص کے طور پر سامنے آرہے ہے، جس کی واحد صلاحیت پی ٹی آئی کے بانی کے ریاستی اداروں کے خلاف بیانیے کو آگے بڑھانا ہے۔ یہ وزیراعلیٰ اس وقت صرف غیر آئینی سیاست میں مصروف ہے۔ نہ اسے ملک کی کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی صوبے کے امن و امان کا خیال ہے۔ اسے پولیس کے اہم محکمے کی طرف توجہ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں، نہ ہی اسے صوبے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا احساس ہے۔

سوات کے علاقے مالم جبہ کے افسوسناک واقعے کے علاوہ ضلع کرم میں قبائلی جھڑپوں کے نتیجے میں پانچ سے چھ افراد کی ہلاکت کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ ایک طرف لاقانونیت بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ بھی احتجاج کرنے کی باتیں کر رہی ہے۔ فتنہ الخوارج، غیر قانونی سرگرمیاں، اور غیر قانونی افغان باشندوں کے مسائل بھی صوبے کو درپیش ہیں، لیکن یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ صوبے میں حکومت کا کوئی وجود نہیں ہے، اور جب حکومت ہی نہیں تو اس کی رٹ کیسے قائم ہو سکتی ہے۔

صوبہ خیبر پختونخواہ میں وزارت داخلہ غیر متحرک ہے۔ اگر کسی وزیر کے پاس داخلہ امور کی ذمہ داری ہے تو اس کا نام تک سامنے نہیں آیا ہے۔ کئی واقعات ہو چکے ہیں، مگر ابھی تک کسی وزیر داخلہ کا کوئی وجود خیبر پختونخواہ میں نظر نہیں آیا۔ اگر وزیراعلیٰ نے خود یہ قلمدان اپنے پاس رکھا ہوا ہے تو پھر اللہ ہی اس صوبے کا حافظ ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا، علی امین گنڈاپور، جس کے صوبے میں سکیورٹی اہلکار، پولیس اہلکار اور عوام مجرموں کے رحم و کرم پر ہیں، وہ کبھی جلسے کامیاب کرانے کے لیے ترنول، کبھی سنگجانی، اور کبھی لاہور بھاگتا پھر رہا ہے۔ اس شخص کی نظر میں صرف پی ٹی آئی کے جلسے اور پارٹی کے بانی کی ہدایات اہم ہیں۔ نہ پہلے کبھی اس نے عوامی مفاد کے بارے میں سوچا تھا اور نہ اب ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔ جس صوبے کا وزیراعلیٰ خود دہشت گردی کرتے ہوئے کلاشنکوف اٹھا کر ٹرکوں کے شیشے توڑے، وہ دہشت گردوں کو کیسے روکے گا؟

صوبہ خیبر پختونخواہ میں امن و امان کی بدترین صورتحال کی بنیادی وجہ کرپشن اور ہر سطح پر حکومتی بدانتظامی ہے، جس کے باعث عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ شاید ہی کوئی حکومتی شعبہ ہو جو رشوت ستانی اور بدانتظامی سے محفوظ رہا ہو۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے تعلیمی شعبے کی حالت بھی ابتر ہو چکی ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم کی حیثیت اتنی کم ہو چکی ہے کہ وہ چوتھے درجے کے ملازمین کے مسائل بھی حل نہیں کر سکتا، وائس چانسلر کا مسئلہ کیسے حل کرے گا؟ صوبائی وزیر تعلیم بیس لاکھ روپے میں نوکریاں فروخت کر رہا ہے۔

صوبائی وزیر تعلیم نے یونیورسٹی کی زمینیں بیچنی شروع کر دی ہیں، اور اب سرکاری اسکولوں کو نجکاری کے نام پر بیچا جا رہا ہے۔ کابینہ کے اجلاس تک اسلام آباد میں منعقد ہوتے ہیں، جہاں وزیر اور اس کے ساتھ سیکرٹری اور باقی عملہ اسلام آباد آتا ہے۔خیبر پختونخواہ میں کرپشن کا یہ عالم ہے کہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے صوبے میں بی آر ٹی منصوبے میں بھی کرپشن کی داستانیں سامنے آئیں، جس کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ اس سے قبل بلین ٹری منصوبے میں بھی کرپشن کی کہانیاں سامنے آئی تھیں۔

اس طرح کی صورتحال میں صوبہ کیسے چلے گا؟ گزشتہ روز یہ حال تھا کہ کسی بھی سرکاری محکمے میں کوئی موجود نہیں تھا، پشاور میں تک کوئی سرکاری افسر نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ سب کو لے کر وزیراعلیٰ لاہور فتح کرنے کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ قومی احتساب بیورو خیبر پختونخوا نے آج ایک بڑی کارروائی کے ذریعے قومی خزانے کو 168.5 ارب روپے بچائے، جب انٹرنیشنل کورٹ آف آربیٹریشن سے کنٹریکٹرز کا 31.5 ارب روپے کا دعویٰ خارج کروا دیا گیا۔ بی آر ٹی پشاور کے کنٹریکٹ کے غیر قانونی ایوارڈ، سرکاری فنڈز میں خرد برد، اور جعلی پرفارمنس گارنٹی کی تحقیقات میں گھپلوں کا انکشاف ہوا، جس کے بعد نیب کی تحقیقات میں کمپنیوں کے جعلی معاہدوں کا پردہ چاک ہو گیا۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں نے سرکاری ادارے کو دھوکہ دے کر کوئی کام کیے بغیر تقریباً ایک ارب روپے وصول کیے۔ نیب نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے 400 سے زائد بینک اکاؤنٹس کی چھان بین کی۔ نیب تحقیقات میں یہ بھی ثابت ہوا کہ مقامی کنٹریکٹرز نے معاہدہ حاصل کرنے کے لیے بوگس آڈٹ رپورٹس جمع کرائیں۔ نیب نے ان غیر ملکی کمپنیوں کو متعلقہ سفارت خانوں کے ذریعے شامل تفتیش کیا۔ نیب کی تحقیقات کے نتیجے میں پراجیکٹ کو اصل لاگت پر مکمل کروایا گیا اور قومی خزانے کے 9 ارب روپے بچائے گئے۔ مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مخدوش حالات میں خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور ہی کیوں ہونا چاہیے؟ کیا خیبر پختونخوا کے عوام کو اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ انہوں نے بہتر مستقبل کے لیے انہیں ووٹ دیا؟

ایک ایسا صوبہ جہاں لاقانونیت بڑھ رہی ہے، کیا وہاں مستقل وزیر داخلہ کا ہونا ضروری نہیں؟ صوبے کے ہر شعبے میں کرپشن کی جڑیں گہری ہیں، تو پھر اس ناکام اور نااہل حکومت سے کس طرح بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے؟

Leave a reply