مزید دیکھیں

مقبول

مریم نواز کا سکالرشپ پروگرام اعزاز یا مذاق؟

مریم نواز کا سکالرشپ پروگرام اعزاز یا مذاق؟
تحریر: اعجازالحق عثمانی
زمانۂ حال کی سیاست میں خیرات، امداد اور فلاحی سکیمیں عوامی مقبولیت کے حصول کا مجرب نسخہ سمجھی جاتی ہیں۔ انہی سکیموں میں، سوشل میڈیا تشہیر سے بھرپور ایک مریم نواز کا سکالرشپ پروگرام بھی شامل ہے، جسے بظاہر غریب اور مستحق طلباء کی تعلیم کے فروغ کے لیے ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس پروگرام کی تفصیلات میں جب گہرائی سے جھانکا جاتا ہے تو حقائق کے پردے ہٹتے ہیں اور اس سکیم کے مضمرات ایک عجیب تمسخر کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔

سکالرشپ کی مد میں یونیورسٹیوں میں طلباء کے لیے قریباً 50 سے 90 لاکھ روپے تک کے وظائف فراہم کیے جا رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بظاہر متاثر کن ہیں اور عوامی ذہن میں یہ گمان پیدا کرتے ہیں کہ ان وظائف کی مدد سے مستحق طلباء کے تعلیمی مسائل حل ہو جائیں گے۔ مگر جب اس رقم کو 200 سے 300 طلباء کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے تو ہر طالب علم کو محض 15,000 سے 20,000 روپے ہی میسر آتے ہیں۔یہ رقم جو سننے میں تو کسی "اعزاز” سے کم نہیں لگتی، حقیقتاً ایک مذاق کے مترادف ہے۔ موجودہ تعلیمی حالات میں، جہاں یونیورسٹیوں کی ایک سمسٹر کی فیس 50,000 سے ایک لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے، وہاں یہ رقم طالب علم کی ضرورتوں کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی پورا نہیں کرتی۔ نتیجتاً، نہ تو یہ وظائف تعلیمی بوجھ کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو پاتے ہیں اور نہ ہی مستحقین کو کسی حقیقی ریلیف کی امید دلاتے ہیں۔

اس سکالرشپ پروگرام کے ساتھ جو ایک اور سنگین مسئلہ جڑا ہوا ہے، وہ مریم نواز کے یونیورسٹیوں کے دوروں کے دوران پیدا ہونے والی صورتِ حال ہے۔ ان کے دوروں کی وجہ سے اکثر یونیورسٹیوں میں کرفیو جیسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تقریباً 95 فیصد طلباء کو چھٹی دے دی جاتی ہے، اور بعض اوقات تو یونیورسٹیاں اپنے جاری امتحانات تک کو منسوخ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔یہ صورت حال ان دوروں کا مقصد تعلیمی مسائل کو حل کرنا نہیں، بلکہ کسی اور طرف کو اشارہ کرتی ہے۔ طلباء کی پڑھائی اور ان کے تعلیمی معمولات کو تہ و بالا کر کے ایسے دورے تعلیمی اداروں کی خودمختاری پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں۔

طلباء کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کی عزت اور حوصلہ افزائی ہر معاشرے کی ترجیح ہونی چاہیے۔ مگر اس سکالرشپ پروگرام میں طلباء کو دی جانے والی معمولی رقم اور اس کے ساتھ کی جانے والی تشہیر طلباء کے وقار کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ ایک طرف سیاسی رہنما عوامی فنڈز سے وظائف دے کر خود کو "عوام کا مسیحا” ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو دوسری طرف طلباء کو ان کی بنیادی تعلیمی ضرورتوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔بوسیدہ تعلیمی نظام، انفراسٹرکچر اور دیگر کئی مسائل میں ہماری جامعات گھری ہوئی ہیں۔ مگر یہ خان اور شریف ہمیں چند ہزار کے پیچھے لگائے رکھیں گے۔ تاکہ ہم اصل مسائل کو بھولے رہیں۔

یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ایسے پروگراموں کے حقیقی اثرات کو سمجھیں اور ان میں اصلاحات کے ذریعے تعلیم کے میدان میں حقیقی انقلاب برپا کریں، نہ کہ محض سیاسی فوائد کے حصول کے لیے عوامی وسائل کا استحصال کریں.

اعجاز الحق عثمانی
اعجاز الحق عثمانی
اعجاز الحق عثمانی ..دو کتابوں کے مصنف ہیں، باغی ٹی وی کے مستقل کالم نگار ہیں