متنازع ترین "پرموشن بورڈ”
جناب شہباز شریف میں جب کبھی بھی آپ کے حوالے سے کالم لکھتا تھا تو سب سے زیادہ فیڈبیک بیوروکریسی کی طرف سے آتا تھا اگر کوئی پہلو ڈسکس نہیں ہوتا تھا تو یہی افسران تفصیل سے اگاہ کرتے کہ شہباز صاحب یہ اصلاحات اور کام بھی کررہے ہیں اگلی دفعہ ان اقدامات کو لازمی مینشن کریے گا۔ جب سے ہائی پاور اور سینٹرل سلیکشن بورڈ ہوا ہے ہر طرف خاموشی ہے، جواب میں اداس ایموجیز کا ہی ریپلائی ملتا ہے۔ مایوسی اور نا امیدی کی یہ لہر صرف ترقی سے محروم افسران تک محدود نہیں رہی بلکہ بیوروکریسی کی اکثریت شدید پریشان ہے اور ایسی بے توقیر اور بے یقینی والی نوکری سے رخصت لیکر بیرون ملک جانے کا سوچ رہے ہیں۔ ہائی پاور بورڈ سے لیکر سینٹرل سلیکشن بورڈتک “پک اینڈ چوز“ نے اہم ترین بورڈز کو ”سلاٹر ہاؤس“ میں بدل دیا۔
جن افسران کو ناحق ترقی سے محروم کیا گیا ہے وہ سخت اذیت اور صدمے میں ہیں۔ بیوروکریسی کی اکثریت چہہ مگوئیاں کرتی پھر رہی ہے کہ شہباز شریف نے بیوروکریسی کو فلاں سابق افسر کو ٹھیکے پر دے دیا ہے۔ جناب شہباز شریف آپ جیسا باخبر، ذہین اور میرٹ پسند حاکم پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کی حامل بیوروکریسی کے معاملات کو چند افراد کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ جناب وزیراعظم آپ کے بارے تو بیوروکریسی کا پختہ یقین رہا ہے کہ شہباز شریف کے ہوتے ہوئے ہمیشہ میرٹ کا بول بالا ہوتا ہے۔
جناب شہباز شریف جب آپ ناحق قید تھے تو افسران کو آپ کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے اور ثبوت فراہم کرنے کے بدلے اچھی پوسٹنگ آفر ہوتی تھیں تو یہ وہی افسران ہیں جو اصولی مؤقف پر ڈٹ گئے تھے کہ جب شہباز شریف نے انہیں کبھی خلاف میرٹ کوئی کام کہا ہی نہیں تو وہ صرف اچھی پوسٹنگ کے حصول کیلئے پنجاب کی تعمیروترقی کے ریکارڈ قائم کرنے والے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خلاف کیونکر بیان دیں، اگر حکومت کو پوسٹنگ دینی ہے تو قابلیت کی بنیاد پر دیں، وہ میرٹ پر بہترین کام کرکے دکھائیں گے۔
آج ان تمام افسران کو اس اصول پسندی کا یہ صلہ ملنا تھا؟
جناب وزیراعظم آپ کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہ بننے والے افسران کی پی ٹی آئی حکومت میں رپورٹس خراب کیں گئیں۔ اس وقت کی رپورٹ کی بنیاد پر آج ان افسران کا پرموشن لسٹ میں نہ ہونا وفاداری کرنے والوں کیلئے بھی سوالیہ نشان بن گیا ہے. کچھ افسران کی ”ٹارگٹ کلنگ“ کیلئے نئی رپورٹس کی بجائے پرانی رپورٹس پیش کی گئیں جو اس گریڈ میں ترقی کیلئے ریلیوینٹ ہی نہیں تھیں جبکہ کچھ افسران کو ترقی سے محروم کرنے کیلئے خود سے”فرمائشی رپورٹیں“ تیار کروائی گئیں۔ بیوروکریسی کا یہ مطالبہ ہے کہ فرضی اور جعلی رپورٹس کی بجائے سب کو قابل قبول سپیشل ویٹنگ ایجنسی کے طور پر آئی ایس آئی کی رپورٹ پر فیصلہ کریں۔
ڈی جی آئی بی فواد اسد اللہ کے حوالے سے بیوروکریسی کے گروپس میں شدید بحث اور تنقید کی جارہی ہے بیوروکریسی نے وزیر اعظم اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ہائی پاور سلیکشن بورڈ اور سینٹرل سلیکشن بورڈ کے فیصلوں پر نظر ثانی کی درخواست کرتے ہوئے متنازع ترین ڈی جی آئی بی اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کی برطرفی کا مطالبہ کیا ایسے حالات میں جب وطن عزیز کو معاشی اور ملکی سلامتی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے اور ان مسائل سے نمٹنے کیلئے یہی بیوروکریسی ہراول دستہ ہیں۔
جناب وزیراعظم اگر افسران خود ترقی سے محروم ہوں گے تو عام عوام کیلئے خلوص نیت سے کیسے کام کر سکیں گے؟ جناب وزیراعظم، پاکستان کی تاریخ کے متنازع ترین پرموشن بورڈ کا ”ریویو“ کیے بنا یہ بورڈ سیاست اور سول سروس کے نام پر کلنک کا داغ بن کر رہ جائے گا۔
وزیر اعظم کو مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے سول سروس اور پاکستان کو تباہی سے بچانے کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔
ملکی باگ ڈور چند افراد کے حوالے کرنے کی بجائے ہر کسی کے اختیارات کا تعین کیا جائے۔ پختہ شواہد کے بغیر کسی کو بھی ترقی سے محروم نہ کیا جائے۔ صوبائی سروس کے افسران کی بیچارگی بھی ختم کرنا ہوگی جو ٹریننگ مکمل کرنے کے باوجود پرموشن بورڈ کی راہ تک رہے ہیں۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر اور ان کی ٹیم پاکستان کو ترقی و کامیابی کی منزلوں پر لے جانے کیلئے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں خدارا! چیف آف آرمی سٹاف کی کوششوں کو رائیگاں نہ کریں۔
پی ٹی آئی کا قریبی ہونے جیسے بیہودہ الزامات لگا کر پرموشن اور پوسٹنگ سے محروم رکھنا، ارباب حکومت کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت بھی فیصلہ سازی سے لیکر کمائی والی تمام سیٹوں پر تو بزدار حکومت میں اہم سیٹوں پر رہنے والے براجمان ہیں پھر پرموٹ نہ ہونے والے، او ایس ڈی اور کھڈے لائن کیے افسران کا کیا قصور ہے؟
حالیہ تعیناتیوں میں ٹریفک پولیس سمیت جو افسران فرائض سے غفلت برت رہے ہیں اور کرپشن کے ریکارڈ توڑ رہے ہیں انکو عہدے سے کیوں نہیں ہٹایا جارہا۔ جو کرپٹ ہے اس کی سزا صرف ترقی نہ دینا کیوں؟ کرپٹ افراد کو نہ صرف نوکری سے نکالا جائے بلکہ لوٹی ہوئی رقم جرمانہ سمیت واپس لی جائے۔
ملک محمد سلمان
maliksalman2008@gmail.com