مزید دیکھیں

مقبول

پاکستان میں گرفتار بھارتی بی ایس ایف اہلکارکے اہلخانہ کی دہائی

بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے جوان...

پی ایس ایل 10، پشاور نے لاہور کو 7 وکٹوں سے ہرا دیا

ایچ بی ایل پاکستان سپرلیگ 10 کے 14...

موسم کی شدت، پی ایس ایل 10 کے میچز ری شیڈول

پاکستان سپر لیگ کے دسویں ایڈیشن کے 2 میچز...

یکم مئی اور مزدور

یکم مئی اور مزدور
تحریر:ملک ظفر اقبال
"مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔”
(سنن ابن ماجہ)

اسلام کا مزدور کے بارے میں تصور اور اس کے متعلق احکامات آج سے تقریباً 1450 سال قبل دیے گئے۔ مغربی دنیا آج ان اصولوں کی بات کر رہی ہے، مگر بدقسمتی سے ہم اسلامی اصولوں کو نہ صرف فراموش کر چکے ہیں بلکہ دوسروں کے اصول اپنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا مسلمان دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ آج ہم یکم مئی کی تاریخی حیثیت اور پاکستان کے مزدور پر بات کریں گے۔

محنت انسانی تہذیب کا ستون ہے۔ ہر ترقی یافتہ معاشرہ اپنے محنت کشوں کے خون پسینے کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔
یکم مئی کو دنیا بھر میں "یومِ مزدور” یا "لیبر ڈے” کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ محنت کش طبقے کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے اور ان کے حقوق کے تحفظ کا عہد دہرایا جا سکے۔

یکم مئی کیوں منایا جاتا ہے؟
یومِ مزدور کی تاریخ 1886ء سے جڑی ہوئی ہے۔ انیسویں صدی میں امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں نے کام کے اوقات کم کروانے کے لیے ایک تحریک کا آغاز کیا۔ اس وقت مزدوروں سے روزانہ 12 سے 16 گھنٹے کام لیا جاتا تھا اور اس کے بدلے میں اجرت نہایت کم دی جاتی تھی۔

یکم مئی 1886ء کو ہزاروں مزدور سڑکوں پر نکلے اور "آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے آرام، آٹھ گھنٹے ذاتی وقت” کا نعرہ لگایا۔
یہ پرامن مظاہرہ جلد ہی پرتشدد تصادم میں بدل گیا۔ پولیس کی فائرنگ سے کئی مزدور شہید اور متعدد گرفتار ہوئے۔ بعد ازاں کئی مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنائی گئی۔

یہ قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ 1889ء میں پیرس میں انٹرنیشنل سوشلسٹ کانگریس نے اعلان کیا کہ یکم مئی کو دنیا بھر میں یومِ مزدور کے طور پر منایا جائے گا۔

محنت ایک ایسی خوشبو ہے جو انسان کی پیشانی سے پسینے کی صورت میں پھوٹتی ہے اور دنیا کو سنوارتی ہے۔
یومِ مزدور، یکم مئی کا دن، اسی مقدس خوشبو کو سلام پیش کرنے کا دن ہے۔

آج دنیا بھر میں، اور پاکستان میں بھی، یومِ مزدور منایا جاتا ہے۔ ریلیاں نکالی جاتی ہیں، تقاریر کی جاتی ہیں اور وعدے دہرائے جاتے ہیں۔ مگر اصل سوال یہ ہے: کیا ہم واقعی اپنے محنت کشوں کو ان کا جائز مقام دے رہے ہیں؟

مزدور وہ ہے جو اینٹ سے اینٹ جوڑ کر شہر بساتا ہے مگر خود کچے جھونپڑوں میں رہتا ہے۔ وہ کارخانوں کا پہیہ چلاتا ہے، مگر اپنی زندگی کے پہیے کو بمشکل گھسیٹتا ہے۔

یومِ مزدور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ترقی کی عمارت محنت کشوں کے کندھوں پر کھڑی ہے۔ اگر ہم ان کے حقوق، تحفظ اور عزت کو یقینی نہیں بناتے تو ہم اپنے ہی مستقبل کو کمزور کر رہے ہیں۔

پاکستان میں محنت کش طبقہ ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو دن رات محنت کرتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس کی محنت کا درست معاوضہ نہیں دیا جاتا۔
مزدور کی زندگی میں چھائی غربت، محنت کے باوجود پستی، اور حکومتی اداروں کی خاموشی اس بات کی غمازی ہے کہ ریاست، جس کا فرض تھا کہ وہ اپنے مزدوروں کو تحفظ دے، خود ان کے استحصال کا حصہ بن چکی ہے۔

مزدوروں کا استحصال ایک حقیقت بن چکا ہے جو روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ آج بھی پاکستانی فیکٹریوں، کھیتوں، تعمیراتی سائٹس اور دیگر صنعتوں میں مزدور انتہائی کم اجرت پر طویل گھنٹوں تک کام کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں کم از کم اجرت ہر سال حکومت کی جانب سے بڑھا دی جاتی ہے، لیکن زمینی سطح پر اس کا کوئی عملی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ سرکاری فائلوں میں سب اچھا ہونے کی رپورٹ شامل ہوتی ہے۔

آج بھی بہت سی فیکٹریاں، کارخانے اور کاروبار بارہ گھنٹے کام کے بدلے صرف 20,000 سے 30,000 روپے ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں، جو کہ ایک فرد کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ یہ تنخواہیں لیبر قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں، مگر سرکاری اداروں کی رضا مندی سے سب کچھ جاری ہے، کیونکہ ہماری ترجیحات کچھ اور ہیں۔

یہ مزدور اس معمولی رقم کو اپنی زندگی کے دباؤ کو کم کرنے میں صرف کرتا ہے، اور بدلے میں نہ صرف اضافی گھنٹے بلکہ سخت شرائط میں کام کرتا ہے، مگر اسے کوئی اضافی فائدہ نہیں ملتا۔

پاکستان کے قوانین کے مطابق، مزدور کو روزانہ آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ فیکٹریوں، تعمیراتی مقامات اور دفاتر میں مزدوروں سے 12، 14، حتیٰ کہ 16 گھنٹے تک کام لیا جا رہا ہے۔

یہ قوانین صرف کتابوں کی حد تک محدود ہیں، جب کہ ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

کام کے دوران حفاظتی تدابیر نہ ہونے کی صورت میں مزدوروں کے جانی نقصان کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے، خاص طور پر تعمیراتی اور فیکٹری کے شعبوں میں، جہاں حفاظتی سامان کی شدید کمی دیکھی جاتی ہے۔اس طرح لاکھوں مزدور زخمی یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جن کا سرکاری سطح پر کوئی باقاعدہ ریکارڈ موجود نہیں۔

پاکستان میں خواتین مزدوروں کا استحصال مزید سنگین ہے۔
انہیں نہ صرف کم اجرت دی جاتی ہے بلکہ جنسی ہراسانی، غیر محفوظ ماحول اور مختلف قسم کی زیادتیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

چائلڈ لیبر بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جہاں اسکول جانے کی عمر کے بچے فیکٹریوں اور ورکشاپوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ غربت اور معاشی بدحالی ہے۔
حقائق سے آگاہی کے باوجود حکومتی خاموشی ایک المیہ ہے۔

پاکستان میں وہ ادارے جو مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کیے گئے ہیں، خود مزدوروں کے استحصال میں برابر کے شریک ہیں۔
لیبر ڈیپارٹمنٹ، ای او بی آئی، سوشل سیکیورٹی جیسے ادارے جو مزدوروں کی فلاح کے لیے بنائے گئے تھے، بدعنوانی، سیاسی مداخلت اور عدم دلچسپی کی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو چکے ہیں۔

لیبر انسپکٹرز، سوشل سیکیورٹی افسران اور دیگر سرکاری اہلکار اکثر رشوت لے کر قانون شکنی پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں فیکٹری مالکان اور ٹھیکیدار قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور جب مزدور آواز بلند کرتا ہے تو اس کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں اگرچہ متعدد لیبر قوانین موجود ہیں، جیسے کہ کم از کم اجرت، کام کے اوقات اور کام کی جگہ پر تحفظ، مگر ان قوانین کا نفاذ نہایت سست اور غیر مؤثر ہے۔

مزدوروں کی اکثریت ان قوانین سے ناواقف ہے، اور جب ان کا استحصال ہوتا ہے تو وہ خوف یا مایوسی کی وجہ سے شکایت درج کروانے سے گریز کرتے ہیں۔

سیاسی مداخلت نے ریاستی اداروں کو کمزور اور بدعنوان بنا دیا ہے۔
مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے اکثر کارکنوں کو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی شکایات کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ایک سنگین قومی مسئلہ ہے جسے مزید نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

مزدور کا حق ہے کہ اسے مناسب اجرت، محفوظ کام کا ماحول، اور سوشل سیکیورٹی کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔
یہ وہ بنیادی حقوق ہیں جنہیں یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

مزدوروں کو اپنی یونینز بنانے کا مکمل حق دیا جانا چاہیے تاکہ وہ اجتماعی طور پر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکیں۔
لیبر قوانین کو مزید مؤثر بنایا جائے اور ان پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے تاکہ مزدوروں کا استحصال روکا جا سکے۔

حکومتی اداروں میں سیاسی مداخلت ختم کی جائے تاکہ مزدوروں کو انصاف فراہم کیا جا سکے اور ان کے حقوق محفوظ ہوں۔

پاکستان کا مزدور طبقہ، اگرچہ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، مگر اس کا استحصال اتنی شدت سے ہو رہا ہے کہ اس کے حقوق و فلاح کے لیے بنائے گئے قوانین صرف کاغذوں تک محدود رہ گئے ہیں۔

حکومت کی خاموشی اور اداروں کی کرپشن نے مزدوروں کے لیے انصاف کے دروازے بند کر دیے ہیں۔
مزدور کا استحصال تب تک جاری رہے گا جب تک حکومت اور ادارے اس مسئلے کی سنگینی کو تسلیم کر کے مؤثر اقدامات نہیں کرتے۔

اگر یومِ مزدور کے حوالے سے ایک مختصر جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں یومِ مئی کے دن "مزدور کام پر، اور افسر چھٹی پر” ہوتا ہے۔ یہ ایک کھلا تضاد ہے۔

پاکستان کے اکثر کارخانوں اور فیکٹریوں میں آج بھی مزدور 12 گھنٹے ڈیوٹی کے بدلے صرف 25,000 روپے ماہانہ پر کام کرنے پر مجبور ہے، جب کہ سرکاری سطح پر 8 گھنٹے کے عوض 37,000 روپے تنخواہ مقرر کی گئی ہے۔

زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو لیبر قوانین کا جنازہ خود لیبر ڈیپارٹمنٹ بڑی دھوم سے نکال رہا ہے اور مزدور کی آواز دبانے کے بدلے "لفافہ ازم” کو ترجیح دیتا ہے۔

حکومتِ وقت کو اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا:
کیا مزدور کی پنشن دس ہزار روپے کافی ہے؟
کیا مزدور کو لیبر قوانین کے مطابق سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں؟
کیا آئی ایل او (ILO) کے تحت مزدور اپنا حق حاصل کر رہا ہے؟
کیا لیبر ڈیپارٹمنٹ بغیر رشوت مزدوروں کو حقوق فراہم کر رہا ہے؟
کیا ای او بی آئی کے تمام حقوق واقعی سب کو مل رہے ہیں؟

زمینی حقائق یہی ہیں کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ مزدوروں کا خون چوس رہا ہے، اور اس کی مثالیں اربوں روپے کی کرپشن سے جڑی کہانیوں کی صورت میں موجود ہیں۔

آئیں، آج ہم یہ عہد کریں کہ ہم مزدور کو وہ بنیادی حقوق دیں گے جو پاکستانی آئین اور قوانین کے مطابق اس کا حق ہیں۔
مگر یاد رکھیں، ہر حکومت اور اپوزیشن پارٹی لفظ "کریں گے” کے نام پر مزدور کو دہائیوں سے دھوکہ دیتی آئی ہے۔
اور یہی ہے آج کا یومِ مئی۔

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانیhttp://baaghitv.com
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی 2003ء سے اب تک مختلف قومی اور ریجنل اخبارات میں کالمز لکھنے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹنگ اور گروپ ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرکے طورپر زمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں اس وقت باغی ٹی وی میں بطور انچارج نمائندگان اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں