آغا نیاز مگسی
ڈیرہ بگٹی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کی منفرد شخصیت کے مالک ، بلوچستان کے سابق گورنر ، سابق وزیر اعلیٰ سابق وفاقی وزیر اور بگٹی قبیلے کے سربراہ نواب محمد اکبر خان بگٹی 12 جولائی 1927 میں بارکھان بلوچستان میں اپنے ننھیال کھیتران قبیلہ کے گھر میں پیدا ہوئے اور26 اگست 2006 میں ضلع کوہلو کے ایک پہاڑی غار میں ایک سانحے کا شکار ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی یہ پراسرار موت بھی بہت سی دیگر نامور شخصیات کی طرح آج تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ مجھے ان کی نمازہ جنازہ کا منظر دیکھنے اور رپورٹنگ کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے جس میں اندرون بلوچستان سے شریک ہونے والا میں واحد صحافی تھا بلکہ مجھے یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ پرنٹ میڈیا میں ان کا صحیح موقف پیش کرنے کا اعتماد حاصل کرنے کے باعث تقریباً 9 سال تک ٹیلی فون پر ان کی خبریں میں پیش کرتا رہا ۔ یہی وجہ تھی کہ کوئٹہ کے بہت سے نامور صحافی کسی موضوع یا کسی اہم مسئلے پر ان کا موقف جاننے کیلئے مجھ سے رابطہ کر کے نواب صاحب کا موقف معلوم کرتے تھے اور اسی تعلق اور اعتماد کے تناظر میں 2005 میں نصیر آباد اور جعفر آباد کے سینیئر صحافی دوستوں عبدالستار ترین ، دھنی بخش مگسی ، شیخ عبدالرزاق اور محمد وارث دیناری نے مجھے حکم دیا کہ میں نواب صاحب سے رابطہ کر کے ان سے ملاقات کیلئے وقت لے لوں ۔ میں نے نواب صاحب سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا جنہوں نے از راہ شفقت فرمایا کہ آپ جب اور جس وقت چاہیں اپنے صحافی دوستوں کو میرے پاس لے آئیں ۔ میں نے دوستوں سے رابطہ کر کے نواب صاحب کو اپنے پروگرام سے آگاہ کیا جس کے بعد انہوں نے ڈیرہ الله یار کے اپنے قبیلے کے ایک بااعتماد نوجوان دریحان بگٹی کو مجھ سے رابطہ کرنے کیلئے ہدایات جاری کر دیں ۔ ہم لوگ 12 دسمبر 2005 کو ڈیرہ الله یار سے ڈیرہ بگٹی کیلئے روانہ ہوئے ۔ راستے میں ایک پولیس تھانہ کے ایس ایچ او نے عبدالستار ترین کو زبردستی دو پہر کو کھانا کھلانے کیلئے روکا جس کی وجہ سے ہمیں کافی تاخیر ہو گئی۔ جب ہم ڈیرہ بگٹی شہر میں داخل ہوئے تو ایک دو جگہ پر ہم کسی ضرورت کے تحت گاڑی سے نیچے اترے تو لوگ ہمیں کہتے کہ آپ نواب صاحب کے مہمان ہیں ؟ ہم نے حیرت سے اثبات میں جواب دیا تو وہ بولے کہ نواب صاحب بہت دیر تک اپنی ” کچہری ” یعنی محفل میں آپ لوگوں کا انتظار کرتے رہے ۔ ہم پہلے نواب صاحب کے مہمان خانے گئے جہاں ہمارے لئے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا ۔ کھانا کھانے کے بعد وہاں سے ہمیں ان کی خلوت گاہ پہنچا دیا گیا ۔
ہم جیسے ہی ان کی آرام گاہ میں داخل ہوئے انہوں نے از راہ مذاق کہا کہ میں تو اس انتظار میں تھا کہ بی بی سی ریڈیو سے کب خبر چلتی ہے کہ نواب اکبر بگٹی سے ملاقات کیلئے ڈیرہ بگٹی جانے والے نصیر آباد اور جعفر آباد کے صحافی اغوا کر لیے گئے ہیں ۔ ان سے ملاقات میں ، میں نے اپنے صحافی دوستوں کا ان کے شہر اور صحافتی ادارے کے ساتھ وابستگی کے حوالے سے تعارف کرایا جس کے بعد انہوں نے بلوچی رسم کے مطابق ہم سے بلوچی ” حال” لینا چاہا چناں چہ میں نے انہیں ” حال ” دیا اور ان سے ” حال” لیا جس کے بعد ان سے باقاعدہ انٹرویو / گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا ۔ میرے دوستوں نے ان سے حالات حاضرہ کے مطابق سیاسی سوالات کئے جبکہ میں نے ان سے ذاتی نوعیت کے غیر سیاسی سوالات کئے جن میں ان کے رومان، مذہبی و فکری رجحان ، پسندیدہ شخصیات ، سیر وسیاحت اور خود کو ڈیرہ بگٹی تک محدود رکھنے کے متعلق سوالات شامل تھے جن کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے جوانی میں عشق بھی کیا، دنیا کے کئی ممالک کا مطالعاتی دورہ بھی کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ کئی سال سے ڈیرہ بگٹی سے باہر نہ جانے کی وجہ یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کی نظریں ڈیرہ بگٹی پر مرکوز ہیں اس لئے میں ڈیرہ بگٹی سے باہر نہیں نکلتا جبکہ 18 سال سے گوشت نہ کھانے کی وجہ یہ بتائی کہ وہ مذہبی لحاظ سے بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کی شخصیت سے متاثر ہیں اس لئے ان کی تقلید کرتے ہوئے انہوں نے گوشت کھانا ہمیشہ کیلئے ترک کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنی پسندیدہ شخصیات میں رابندر ناتھ ٹیگور اور ہٹلر کا نام لیا۔ دسمبر کی یخ بستہ رات میں ان کے ساتھ ہونے والی ہماری نشست رات 9 بجے سے صبح 3 بجے تک یعنی 6 گھنٹوں پر محیط تھی ۔ اس گفتگو کے دوران ایک بار ہمارے ایک دوست نے ان سے یہ سوال کیا کہ نواب صاحب آپ کبھی حج یا عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کیلئے سعودیہ بھی گئے یا نہیں تو اس کے جواب میں خلاف توقع نواب صاحب نے ہمارے صحافی دوست سے تلخ لہجے میں سوال کیا کہ ابھی جو مگسی صاحب (میری جانب اشارہ) نے میرے بیرونی ممالک کے دوروں کی فہرست میں جن ممالک کے نام لکھے ہیں تو کیا ان میں سعودی عرب کا نام شامل ہے ؟ اس غیر متوقع سوال اور جواب سے محفل کا ماحول یکسر تبدیل ہو گیا لیکن تقریباً نصف گھنٹے سکوت اور خاموشی کے بعد پھر سے محفل خوشگوار ہو گئی۔ اس طویل اور یادگار نشست کا اختام خود نواب اکبر خان بگٹی نے یہ کہہ کر ، کر دیا کہ اب آپ لوگوں پر نیند کا غلبہ طاری ہو رہا ہے اس لئے جا کر آرام کریں اس طرح ان کے ساتھ ہونے والی یادگار نشست اختتام پذیر ہو گئی جس کی یادیں ابھی تک ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہیں ۔
نوٹ : 2018 سے میں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے تناظر میں صحافت کے شعبے سے قطع تعلق کر لیا ہے جس کے بعد میرا کسی بھی صحافتی ادارے سے تعلق نہیں ہے ۔ (آغا نیاز مگسی )