سروں کی ملکہ نور جہاں کی آج بائیسویں برسی ہے نور جہاں آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں اورہمیشہ رہیں گی.انہوں نے ہزاروں گیت گائے کئی فلموں میں‌اداکاری کی ، پاکستان کی پہلی خاتون ڈائریکٹر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. ان کی خدمات کے عوض انہیں 1957 میں صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز اور بعد ازاں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔ 1965 کی جنگ میں انہوں نے میرے ڈھول سپاہیا، اے وطن کے سجیلے جوانوں، ایہہ پتر ہٹاں تے نیئی وکدے، او ماہی چھیل چھبیلا، یہ ہواؤں کے مسافر، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میرا سوہنا شہر قصورنیں سمیت بے شمار ملی نغمے گا کر قوم اور فوج کے جوش و ولولہ میں اضافہ کیا۔ لتا منگیشکر سمیت ہندوستان اور پاکستان کے بڑے اور نامور موسیقار، گلوکار ان کی شخصیت آواز اور اداکاری کے دیوانے تھے.میڈم نور جہاں نے انہوں نے 10ہزار سے زائد غزلیں و گیت گائےجو آج بھی کانوں میں‌رس گھولتے ہیں. نور جہاں21

ستمبر 1923ء کو قصور میں پیدا ہوئیں۔انہیں پیار سے اللہ وسائی کہا جاتا تھا۔انکا گھرانہ موسیقی اور گانے بجانے سے وابستہ تھا اسی لیے ان کے گھروالوں نے انہیں بھی موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے استاد کے پاس بٹھادیا۔ استاد بابا غلام محمد سے موسیقی کی تربیت حاصل کی انہیں کلاسیکی روایتی ہندوستانی موسیقی کی خصوصی طور پر تربیت دی گئی تھی انکو ٹھمری، دھرپد، خیال اور دیگر اصناف موسیقی پر چھوٹی عمر میں ہی عبور حاصل ہوچکاتھا۔ انہوں نے کم سنی میں ہی اسٹیج پر اداکاری اور گلوکاری کا مظاہرہ کیا۔ جب تک یہ دنیا قائم ہے نورجہاں کو اور ان کی گائیکی کو یاد رکھا جائے گا.

Shares: