پاکستان نے کہا ہے کہ غزہ اور اس سے باہر جاری سنگین انسانی بحران سلامتی کونسل کی عدم فعالیت کو ظاہر کرتا ہے، جو کہ ایک خطرناک نظیر قائم کر رہا ہے۔ اسرائیل جس بے خوفی سے سلامتی کونسل کی قراردادوں، جنگ بندی کے معاہدے، بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے منشور اور جنیوا کنونشنز سمیت تمام تہذیبی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے، اس سے فلسطینی عوام یہ سوال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ آیا سلامتی کونسل کبھی کوئی مؤثر اقدام کرے گی یا صرف ان کے مصائب پر افسوس کا اظہار ہی کرتی رہے گی۔
فلسطینی مقبوضہ علاقوں کی صورت حال پر الجزائر کی جانب سے (پاکستان، چین، صومالیہ اور روس کی حمایت سے) بلائے گئے سلامتی کونسل کے کھلے اجلاس میں، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہمارا یہ طرز عمل نہ صرف اس ادارے کو کمزور کرتا ہے بلکہ اقوام متحدہ کے منشور پر قائم بین الاقوامی نظام کو بھی مجروح کرتا ہے۔انہوں نے کہا، ’’جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے وہ انسانیت کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ سلامتی کونسل کو فوری اقدام کرنا ہوگا۔ ہم ایسے ادارے کا حصہ نہیں بن سکتے جو محض تماشائی بنا رہے اور کچھ نہ کرے۔ ہم اس اخلاقی دیوالیہ پن کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہیں، جسے ہمارے سلووینی ساتھی نے ’انسانیت کے زوال‘ سے تعبیر کیا۔‘‘انہوں نے زور دیا کہ سلامتی کونسل اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی ہی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے، ورنہ یہ ادارہ بے معنی ہو جائے گا۔سفیر عاصم نے کہا کہ غزہ مکمل تباہی کی تصویر پیش کر رہا ہے، جہاں نہتے شہریوں بشمول بچوں، خواتین، امدادی کارکنوں، اقوام متحدہ کے اہلکاروں، صحافیوں اور اسپتالوں، اسکولوں سمیت تمام شہری انفراسٹرکچر کو اندھا دھند نشانہ بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا، ’’کچھ بھی محفوظ نہیں رہا ، یہاں تک کہ تاریخی و ثقافتی ورثے بھی۔ یہ مکمل تباہی ہے، ایک ایسی صورت حال جہاں انسانی ہمدردی کے بین الاقوامی قوانین کو کھلم کھلا نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘‘
پاکستانی سفیر نے کہا کہ گزشتہ ماہ جنگ بندی توڑنے کے بعد اسرائیل نے مزید 1100 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے، جس سے 2023 کے اکتوبر سے 2025 کے جنوری تک شہید ہونے والوں کی تعداد 50,000 سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں 17,000 بچے شامل ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ’’یہ صرف جنگ نہیں بلکہ ایک قوم کی منظم تباہی ہے۔‘‘انہوں نے توجہ دلائی کہ پچھلے ایک ماہ سے اسرائیل نے تمام سرحدی راستے بند کر دیے ہیں، جس کی وجہ سے نہ خوراک اور نہ ادویات غزہ میں داخل ہو پا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یونیسیف کے مطابق ایک ملین بچے بنیادی ضروریات سے محروم ہیں جبکہ عالمی ادارہ خوراک شدید قحط کی وارننگ دے چکا ہے۔جب اقوام متحدہ کے اہلکار اور انسانی ہمدردی کے کارکنان کو بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے، تو ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ کیا بچا ہے اس عالمی نظام میں جو ہم نے جنگِ عظیم دوم کی راکھ سے تعمیر کیا تھا.
انہوں نے مسجد الاقصیٰ کی حرمت پامال کرنے کے اسرائیلی اقدامات کی بھی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ مذہبی آزادی کے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔سفیر عاصم نے زور دیا کہ سلامتی کونسل اور عالمی برادری کو محض بیانات تک محدود رہنے کے بجائے فوری اور مؤثر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔