لاہور پولیس نے گزشتہ 10 ماہ کے دوران شہریوں کی جانب سے درج کرائی گئی ‘پرانی شکایات’ پر 16 ہزار سے زائد فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) درج کی ہیں۔

باغی ٹی وی: نجی خبررساں ادارے ڈان کی رپورٹ کے مطابق یہ اتنی بڑی تعداد میں جرائم کے اعداد و شمار کو چھپانے کا پہلا واقعہ ہے جس کی نشاندہی ہوئی اور یہ معاملہ پولیس قیادت کے حالیہ اجلاس کے دوران باضابطہ طور پر رپورٹ ہوا۔

کچھ پولیس ماہرین کا کہنا ہے کہ ‘برکنگ’ کی اصطلاح کو قانون میں جرم سے جوڑا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ درج کردہ جرم کی معلومات حاصل کرنے میں ناکامی اور جرائم سے متعلق تفتیش کے عمل کو روکنا ہے-

اس سے باخبر ایک عہدیدار نے کہا کہ جب پولیس جرائم کی شرح کم دکھانے کے لیے گڑ بڑ کرتی ہے تو شکایات کی اطلاع نہیں دی جاتی، اس غیر اخلاقی عمل نے شہریوں کو ان کی چھینی یا چوری شدہ املاک کی برآمدگی کے لیے مجرموں کو قانون کی عدالت میں لے جانے کے بنیادی حق سے محروم کیا۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ لاہور پولیس کے 6 ڈویژنز میں شہریوں نے یکم جنوری سے 31 اکتوبر تک 16 ہزار 533 شکایات درج کروائیں یہ تمام شکایات گاڑیاں چھیننے، ڈکیتی، چوری جیسے سنگین جرائم سے متعلق تھیں جنہیں پولیس ریکارڈ میں رپورٹ نہیں کیا گیا۔

اس پیشرفت کا سب سے پریشان کن حصہ یہ تھا کہ پولیس نے گاڑیوں کی چھیننے اور چوری سے متعلق جرائم میں بھی گڑ بڑ کی جیسا کہ دستیاب اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں اس قسم کے جرائم اتنی بڑی تعداد میں غیر رپورٹ شدہ رہے۔

اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ چور 10 ماہ کے دوران شہریوں سے 4209 موٹر سائیکلیں اور 139 کاریں یا دیگر گاڑیاں چھیننے کے علاوہ گن پوائنٹ پر 45 موٹر سائیکلیں اور3 کاریں یا دیگر گاڑیاں چوری کی گئیں یہ تمام جرائم نومبر کے مہینے میں درج کیے گئے-

کراچی میں ٹک ٹاکرز جوڑے اسٹریٹ کرمنلز کا آسان ہدف بن گئے

یہ صورتحال صوبائی دارالحکومت میں صوبائی پولیس سربراہ اور متعلقہ اداروں کے دیگر افسران کی ناک کے نیچے جرائم کے اعداد و شمار چھپانے کا خوفناک رجحان ظاہر کرتی ہے۔

پولیس ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس افسران کی کارکردگی کا اندازہ عموماً جرائم کی شرح میں اضافے یا کمی سے لگایا جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ مدت کے دوران افسران نے جرم کو ریکارڈ نہ کر کے اسے قابو کرنے کی کوشش کی۔

ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ جرائم کے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کو اکثر غیر پیشہ واریت کی بدترین مثال قرار دیا جاتا ہے جس نے پولیس کے محکموں کو پریشان کر رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر کا اندراج ریاست کی ذمہ داری ہے تا کہ قابل سزا جرائم ہونے کا ریکارڈ رکھا جاسکے جس سے شہر میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔

منشیات کیس میں نامزد ملزم کی درخواست ضمانت خارج

اتنی بڑی تعداد میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف شکایات درج کرانے کے شہریوں کے بنیادی حقوق سے انکار کے سرکاری اعداد و شمار نے پولیس افسران کے ساتھ ساتھ موجودہ طریقہ کار کو بھی بری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 16 ہزار 533 غیر رپورٹ شدہ شکایات میں ڈکیتیوں کی 16، لوٹ مار کی 2 ہزار 365 ، گاڑیوں کی چھینا جھپٹی کی4 ہزار 413، گھر اور دکانوں میں چوری کی 570، اسٹریٹ کرائم کی ایک ہزار 360، املاک کی 7210 اور 599 متفرق شکایات تھیں۔

اعداد و شمار کے ڈویژن وار بریک ڈاؤن کے مطابق کنٹونمنٹ ڈویژن مقدمہ درج کرنے کے انکار میں 4 ہزار 188 شکایات کے ساتھ سرِ فہرست، ماڈل ٹاؤن ڈویژن 3 ہزار 356 شکایات کے ساتھ دوسرے اور سول لائنز ڈویژن 2 ہزار 770 شکایات کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔

اسی طرح یکم جنوری سے 31 اکتوبر سٹی ڈویژن نے 2 ہزار 609 شکایات پر فوجداری مقدمات درج نہیں کیے، صدر ڈویژن نے2 ہزار 77 سے انکار کیا جبکہ اقبال ٹاؤن ڈویژن نے ایک ہزار 533 شکایات کو مسترد کیا۔

تیزاب گردی کا شکار "مریم” کا انصاف کا مطالبہ

ایک اور اہلکار نے، جو معلومات سے واقف ہے، کہا کہ پولیس حکام نے یہ سرکاری اعداد و شمار اس سال کے پہلے 10 مہینوں کے دوران رپورٹ نہ ہونے والی شکایات کا تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد کیے ہیں۔

ایک دو ملاقاتوں میں اس معاملے پر تفصیلی غور و خوض کے بعد، انہوں نے کہا، پولیس کے اعلیٰ افسران نے یہ پرانی غیر رپورٹ شدہ شکایات تمام ڈویژنل ایس پیز کو بھیجی ہیں تاکہ ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے ان کی دوبارہ تصدیق کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس ساری صورتحال میں فائدہ اٹھانے والے مجرم/ ڈاکو تھے جو جرم کرنے کے باوجود عدالت سے سزا سے بچ گئے تھے۔

تصدیق کےعمل کے بعد، اہلکار نے مزید کہا، پولیس نے پرانی شکایات پر 16 ہزار 533 نئی ایف آئی آر درج کیں جس سے تفتیشی ونگ پر بوجھ کئی گنا بڑھ گیا، جو پہلے ہی عملے اور رسد کی کمی تھی۔

لاہور: لنک روڈ پر گلے پر ڈور پھرنے سے نوجوان جاں بحق، ایس ایچ او معطل

Shares: