ٹرمپ کی پالیسیوں کو روکنے والے ججز کیخلاف مواخذے کی کارروائی کا اعلان

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ججز کے خلاف مواخذے کی تحریک کو ایوان نمائندگان میں تو اکثریتی ووٹ سے منظور کیا جا سکتا ہے-
america

واشنگٹن: امریکی ریپبلکن اراکینِ کانگریس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو روکنے والے دو وفاقی ججز کے خلاف مواخذے کی کارروائی کا اعلان کر دیا ہے۔

باغی ٹی وی :امریکی میڈیا کے مطابق ریپبلکن رہنما اینڈریو کلائیڈ نے امریکی ضلعی جج جان جے میک کونل جونیئر کے خلاف مواخذے کی تحریک پر کام شروع کر دیا ہے میک کونل نے ٹرمپ حکومت کے وفاقی اخراجات منجمد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا، میک کونل نے ٹرمپ انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ حکومتی اخراجات پر عائد پابندی کو ختم کرے، جسے ریپبلکن اراکین “سیاسی انتقام” قرار دے رہے ہیں۔

اسی طرح، ریپبلکن رکنِ کانگریس ایلی کرین نے جج پال اینگلمائر کے خلاف بھی مواخذے کی تیاری شروع کر دی ہے، جنہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو محکمہ خزانہ کے ریکارڈ تک رسائی دینے سے روک دیا تھا جس پر ریپبلکن حلقوں میں شدید برہمی پائی جاتی ہے۔ تاہم، ان فیصلوں کے حوالے سے میک کونل اور اینگل مائر نے کسی قسم کا ردعمل دینے سے گریز کیا ہے۔

یوٹیلیٹی اسٹورز یونین کا 17 فروری کو ملک گیر احتجاج کا اعلان

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی ججز کے فیصلوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ شاید ان ججز کو بھی “دیکھنے کی ضرورت ہے” کیونکہ یہ ایک “سنگین خلاف ورزی” ہے،اس موقع پر ان کے ہمراہ ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (DOGE) کے سربراہ ایلون مسک بھی موجود تھے، انہوں نے بھی عدلیہ کے فیصلوں پر برہمی کا اظہار کیا تھا ،سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ صرف ایک نہیں، بلکہ متعدد ججز کے خلاف فوری مواخذے کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ججز کے خلاف مواخذے کی تحریک کو ایوان نمائندگان میں تو اکثریتی ووٹ سے منظور کیا جا سکتا ہے، لیکن سینیٹ میں اس کی منظوری کے امکانات نہایت کم ہیں موجودہ سینیٹ میں ریپبلکن اراکین کی تعداد صرف 53 ہے، جبکہ کسی بھی جج کو ہٹانے کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔

امریکا سے مزید 120 بھارتیوں کی ملک بدری،زنجیروں اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر بھارت بھیجا گیا

مریکہ میں عدالتی مواخذے کے کیسز نایاب ہوتے ہیں اور عام طور پر انہیں بدعنوانی، جھوٹی گواہی یا سنگین ذاتی بدعملی کی بنیاد پر لایا جاتا ہے۔ آخری بار 2010 میں کسی جج کو مواخذے کے ذریعے برطرف کیا گیا تھا جبکہ گزشتہ 120 سالوں میں صرف 15 وفاقی ججز کے خلاف مواخذے کی کارروائی ہوئی ہے، جن میں سے 8 کو عہدے سے ہٹایا گیا۔

اس پیشرفت نے امریکہ میں عدلیہ اور ایگزیکٹو برانچ کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے مبصرین کے مطابق، یہ معاملہ ریپبلکن پارٹی اور وفاقی عدلیہ کے درمیان کھلی جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

ٹرمپ اور ایلون مسک نے 9500 سرکاری ملازمین کو برطرف کر دیا

نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی ان عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ججز کو انتظامیہ کے قانونی اختیارات پر کنٹرول کا حق نہیں دیا جا سکتا،” وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیویٹ نے بھی ان ججز کو “سیاسی سرگرم کارکن” قرار دیاد جبکہ اٹارنی جنرل پم بونڈی نے عندیہ دیا کہ محکمہ انصاف ایلون مسک اور ٹرمپ انتظامیہ کی مکمل حمایت کرے گا، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ فوری طور پر ججز کے خلاف مواخذے کا امکان نہیں ہے۔

دوسری جانب،ریپبلکن سینیٹرز کا اس معاملے پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے، سینیٹر چک گراسلی نے کہا کہ “ہمارا آئینی نظام چیکس اینڈ بیلنس پر مبنی ہے، اور ہمیں اسی اصول پر چلنے دینا چاہیے ،جبکہ سینیٹر جان کینیڈی نے کہا کہ “میں عدالتوں کے ہر فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا، لیکن میں عدلیہ کی خودمختاری پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔”

امریکا سے مزید 120 بھارتیوں کی ملک بدری،زنجیروں اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر بھارت بھیجا گیا

برینن سینٹر فار جسٹس کے سینئر وکیل ڈگلس کیتھ کے مطابق اگر کانگریس ججز کو ہٹانے کے عمل کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرتی ہے، تو ججز حکومتی فیصلوں کے خلاف فیصلہ سنانے میں ہچکچاہٹ محسوس کر سکتے ہیں، جو جمہوریت کے لیے خطرناک ہوگا۔

Comments are closed.