برطانوی وزیر اعظم سر کیر اسٹارمر نے ایران پر امریکی حملوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان حملوں سے تہران کے ایٹمی پروگرام سے لاحق خطرہ کم ہوا ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ ایران کو کبھی بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، مشرق وسطیٰ کی صورتحال اب بھی نازک ہے اور خطے میں استحکام برطانیہ کی اولین ترجیح ہے ساتھ ہی انہوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ دوبارہ سفارتی مذاکرات کی میز پر واپس آئے تاکہ اس بحران کا پُرامن حل نکالا جا سکے۔

ایران کئی بار یہ واضح کر چکا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہا اسی مؤقف کی تصدیق اقوام متحدہ کی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے بھی کی ہے، جس کے مطابق اب تک ایران کے ایٹمی پروگرام میں جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

پاکستان کی ایران کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملوں کی شدید مذمت

دوسر ی جانب کیوبا، وینزویلا، چلی، میکسیکو نے ایران پر امریکی حملے کی شدید مذمت کی ہے-

ایران پر امریکی حملے کے بعد لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نے واشنگٹن کی اس کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

کیوبا کے صدر میگل ڈیاز کینل نے امریکی بمباری کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک خطرناک اضافہ ہے جو انسانیت کو "ناقابل واپسی بحران” کی طرف دھکیل رہا ہے۔

جبکہ چلی کے صدر گیبریل بورِک نے بھی امریکہ کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا، انہوں نے ایکس پر لکھا کہ چلی امریکہ کے اس حملے کی مذمت کرتا ہے، طاقت رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اسے انسانیت کے طے کردہ قوانین کی خلاف ورزی میں استعمال کریں۔ چاہے آپ امریکہ ہی کیوں نہ ہوں۔

ادھر میکسیکو کی وزارت خارجہ نے تنازع کو کم کرنے کی اپیل کی کہا کہ ہم اپنی پرامن خارجہ پالیسی اور آئینی اصولوں کے تحت خطے میں کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ علاقائی ریاستوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کی بحالی ہماری اولین ترجیح ہے۔”

علاوہ ازیں وینزویلا کے وزیر خارجہ ایوان گِل نے ٹیلیگرام پر بیان جاری میں کہا کہ وینزویلا امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی درخواست پر کی گئی اس بمباری کی سخت اور غیر مبہم الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ ہم فوری طور پر تمام دشمن کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔”

یہ ابتدائی عالمی ردِعمل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی اقدام کو دنیا بھر میں قانونی اور اخلاقی چیلنجز کا سامنا ہے۔

اسی طرح آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سفارت کاری اور مذاکرات کی حمایت کی ہے۔

آسٹریلوی حکومت نے اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کی براہ راست حمایت نہیں کی، تاہم ایران کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام کو عالمی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم صدر ٹرمپ کے اس بیان کو نوٹ کرتے ہیں کہ اب امن کا وقت ہے، اور ہم کشیدگی میں کمی، مکالمے اور سفارتی راستہ اپنانے پر زور دیتے ہیں۔

دوسری جانب، نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے حملوں پر فکرمندی ظاہر کی، تاہم انہوں نے امریکہ کی مذمت نہیں کی ونسٹن پیٹرز نے کہا کہ یہ نہایت اہم ہے کہ مزید کشیدگی سے بچا جائے نیوزی لینڈ سفارت کاری کی ہر کوشش کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور تمام فریقین سے مذاکرات میں واپسی کی اپیل کرتا ہے۔ سفارتی حل ہی پائیدار راستہ ہے، فوجی کارروائیاں نہیں۔

واضح رہے کہ اتوار کی صبح ا مر یکہ نے ایران کی فردو، نطنز اور اصفہان جوہری سائٹس کو نشانہ بنایا جس سے متعلق ٹرمپ نے سوشل میڈیا سائٹ ٹرتھ سوشل پر بیان جاری کیا،اس کے علاوہ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حملے سے قبل ہی جوہری تنصیات کو خالی کرالیا گیا تھا۔

ایران کا آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا اعلان

Shares: