ہم کیوں ناکام ہیں؟
تحریر:ملک ظفراقبال
یہ ایک پیچیدہ اور گہرا سوال ہے جو کئی دہائیوں سے ہمارے ذہنوں میں مسلسل گردش کر رہا ہے اور کئی دہائیوں سے یہ سوال ہمارے ذہنوں میں مثبت تبدیلی اور مثبت سوچ پیدا کرنے میں کامیاب ہونے کی بجائے مسلسل ناکامی سے دوچار ہے۔ شاید ناکامی کی وجوہات بھی معلوم ہوں مگر ہم مسلسل اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کے باوجود کچھ نہیں کر پا رہے۔ شاید ہم کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ آج اس حوالے سے کچھ معلومات فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا جواب کئی زاویوں سے دیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی معاشرے اور اداروں کی ناکامی کی وجوہات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں جس کا عموماً ذکر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایک دوسرے سے مختلف انداز سے سنتے آ رہے ہیں۔
ناقص حکمرانی، کرپشن اور میرٹ کی خلاف ورزی نے اداروں کو کمزور کیا ہے۔ جس کی وجہ سے آج ہمیں ڈاؤن سائزنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے ذمہ دار اداروں کے ساتھ ساتھ سیاست دان بھی ہیں جو اداروں پر دباؤ ڈال کر میرٹ سے ہٹ کر بھرتیوں پر زور دیتے رہے ہیں جس کی وجہ سے آج ہم ترقی کی بجائے تنزلی کے سفر پر رواں دواں ہیں۔ بطور مثال کئی ایک فرمائشی ادارے موجود ہیں جو ہر نئی حکومت اپنے عوامی وعدے پورے کرنے کے لیے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھاتے رہتے ہیں جس میں ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔ جس کی دوسری بڑی وجہ پالیسیوں میں عدم تسلسل اور وقتی مفادات کو قومی مفادات پر فوقیت دینا شامل ہے۔
قوموں کی ترقی کی سب سے بڑی سیڑھی انصاف پر مبنی معاشرتی نظام ہوتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں امن و سکون اور قومیت کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ برائیاں ہر معاشرے میں موجود ہیں مگر سزا جزا کا عمل انصاف پسندی سے ہو تو معاشرے میں مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے جس کا ہمارے معاشرے میں فقدان ہے۔ پاکستانی پولیس میں ایف آئی آر کا نظام وہ نظام اور قانون ہے جو ہمیشہ ظالم اور طاقتور کے لیے سود مند ثابت ہوا ہے جس کی روزمرہ زندگی میں کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔
قانون سب کے لیے برابر نہیں، طاقتور افراد بچ نکلتے ہیں جبکہ کمزور سزا بھگتتے ہیں۔ عدالتی نظام میں سست روی اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے انصاف تاخیر کا شکار ہوتا ہے۔
ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے تعلیمی نظام کے ساتھ کھلواڑ کرنے میں مصروف ہیں اور آج تک ہم تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے معیاری تعلیم کا فقدان اور نصاب میں جدید دور کے تقاضوں کی کمی ہے۔ تعلیم کو کاروبار بنا دیا گیا ہے اور ڈگری حاصل کرنے تک۔ جس کی وجہ سے غریب طبقہ معیاری تعلیم سے محروم ہے۔ اداروں میں کرپشن عام ہے، جو ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ میرٹ کی بجائے سفارش اور رشوت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
فرقہ واریت، لسانی اور صوبائی تعصبات نے قوم کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے جو ایک سوچی سمجھی سکیموں میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی اور عدم برداشت نے معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس برائی کو ختم کرنے کے لیے بھائی چارے اور قومی سوچ کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے جس میں سرکاری ادارے اور سماج کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
صنعت اور زراعت کی ترقی پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہم زرعی اجناس ان ممالک سے منگواتے ہیں جہاں دور دور تک زراعت کا نام و نشان نہیں، وجہ ہماری غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ آج ہم بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ کیسا نظام ہے کہ ہمارا آنے والا بچہ بھی مقروض ہوگا جس نے ابھی اس دنیا میں آنکھ بھی نہیں کھولی مگر یہ ظالم اور کرپشن زدہ نظام اس کو آنے سے پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبا رہا ہے۔ کیا یہی ہماری ترقی کی ترجیحات ہیں؟ ذرا سوچیں اور سوچ بدلنے کی کوشش کریں۔ مقروض نسل کیا خاک ترقی کر پائے گی جو بن دیکھے مقروض پیدا ہوگئی، اس کا حساب وہ کس سے مانگیں گے؟
میڈیا اکثر سنسنی خیزی کو ترجیح دیتا ہے بجائے کہ مسائل کا حل پیش کرے۔ ہم بطور قوم اپنی ذمہ داریوں کو نظرانداز کر رہے ہیں، اور ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں جو کہ نہ تو ہمارا معیار ہے اور نہ ہی مقصد۔ ہر فرد کو دوسروں پر الزام ٹھہرانے کی عادت ہے، مگر خود اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا۔ ہمیں قومی مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرنا ہوگا اور اپنے اندر قومی جذبہ پیدا کرنا ہوگا ورنہ ہم اگر اسی ڈگر پر چلتے رہے تو شاید واپسی کا راستہ ہمیں نہ مل سکے کیونکہ دنیا ترقی کے سفر میں بہت آگے نکل چکی ہوگی۔ اس سلسلہ میں ہمیں مل کر کچھ اقدامات کرنے ہوں گے جس میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کا عمل پہلی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔
قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جائے، کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔ تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق بنایا جائے اور قومی زبان میں زیادہ سے زیادہ مواد ہو تاکہ طالب علم پڑھنے کے بعد اس کو سمجھ بھی سکے ورنہ رٹا جس سے نمبر تو حاصل کیے جا سکتے ہیں مگر شعور اور بیداری نہیں۔ معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے صنعت اور زراعت پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے رواداری اور برداشت کا درس دیا جائے۔ سیاسی استحکام کو یقینی بنایا جائے اور قومی مفاد کو ذاتی مفادات پر ترجیح دی جائے۔
ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے ہر پاکستانی کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔ تبدیلی صرف حکومت سے نہیں بلکہ عوام سے بھی آتی ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے وطن عزیز کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرے۔