نبی مہربان ﷺ نے یوم عاشورہ یعنی محرم کی 10 تاریخ کا روزہ رکھنے پر ایک سال کے گناہوں کی بخشش کی بشارت دی ہے

حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص یوم عاشورہ (یعنی محرم کی دس تاریخ) کا روزہ رکھے مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گز شتہ سال کے تمام گناہ معاف فرمادے گا ۔ جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 736
ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپﷺ نے پوچھا یہ روزہ کیسا ہے؟ تو ان لوگوں نے کہا کہ بہتر دن ہے اسی دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمنوں سے نجات دی تھی، اس لئے حضرت موسیٰ نے اس دن روزہ رکھا تھا۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ ہم تمہارے اعتبار سے زیادہ موسیٰ کے حقدار ہیں۔چنانچہ آپ ﷺنے اس دن روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1926

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی روزہ رکھتے تھے جب مدینہ آئے تو وہاں خود اس کا روزہ رکھا۔ اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے، تو عاشورہ کے دن روزہ رکھنا چھوڑ دیا۔ جس کی خواہش ہوتی اس دن روزہ رکھتا اور جس کی خواہش نہ ہوتی اس دن روزہ نہ رکھتا۔صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1924

حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ یہودی عاشورہ کے دن کو عید سمجھتے تھے، تو نبی کریم ﷺنے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ تم بھی اسی دن روزہ رکھو۔صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1927

سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے بنی اسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان کردے جس شخص نے کچھ کھا لیا ہے وہ باقی دن تک کچھ نہ کھائے، اور جس نے نہیں کھایا ہے وہ روزے رکھے، اس لئے کہ آج عاشورہ کا دن ہے۔ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1929

مسدد یحیی ہشام ان کے والد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں کہ عاشورہ کے دن قریش بھی روزہ رکھتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے عاشورہ کا خود بھی روزہ رکھا اور اس کے روزہ کا دوسرے مسلمانوں کو بھی حکم دیا۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت نازل ہونے کے بعد جس کا دل چاہتا عاشورہ کا روزہ رکھا اور جس کا دل چاہتا نہ رکھتا۔ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1065حضرت ابوموسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کی عزت وتکریم کرتے اور اس دن روزہ رکھتے دیکھاتورسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم اس دن روزہ رکھنے کے (یہود سے) زیادہ حقدار ہیں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا حکم دیا۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1172

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو یہودیوں سے اس کی وجہ پوچھی گئی انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غالب کیا تھا اس لئے ہم اس کی تعظیم میں اس دن روزہ رکھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہ نسبت تمہارے ہم حضرت موسیٰ کے زیادہ قریب ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1173

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت جب مدینہ میں آئے تو تمام یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور وجہ یہ بیان کرتے کہ یہ وہ دن ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر غلبہ حاصل ہوا تھا اور فرعون بمع لشکر دریا میں ڈوب گیا چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ حضرت موسیٰ کے معاملہ میں تم ان سے زیادہ مستحق ہو لہذا تم بھی عاشورہ کا روزہ رکھو۔ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1865

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور ہم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو وہ دن ہے جس کی تعظیم یہود و نصاری کرتے ہیں تو فرمایا اگلے سال ہم نویں تاریخ کا (بھی) روزہ رکھیں گے۔ لیکن جب اگلا سال آیا تو آپ کی وفات ہو چکی تھی۔ سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 680

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے دریافت کیا کہ عاشورہ کے روزے کے بارے میں کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ کو اس کا علم نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن کے علاوہ کسی اور دن کا روزہ اور دنوں کے مقابلہ میں بہتر سمجھ کر رکھا ہو یعنی رمضان المبارک اور عاشورہ کے دن کا ۔
سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 281حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا رمضان کے روزے کے بعد بہترین روزے اللہ کے مہینے کے کہ وہ ماہ محرم ہے کہ روزے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے بہتر نماز رات کی نماز ہے۔ (مسلم) مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 550
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ اس دن کی کیا خصوصیت ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟ یہودیوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم دن ہے اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی جماعت کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبویا چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکر اس دن روزہ رکھا اس لیے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے مقابلے میں ہم موسیٰ سے زیادہ قریب اور (ان کی طرف سے بطور شکر روزہ رکھنے کے) زیادہ حقدار ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم عاشوراء کو خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (بخاری ومسلم) مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 577
اللہ رب العالمین ہمیں عاشورہ کا روزہ رکھنے کی توفیق دیں ، سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرنے والا بنائیں برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین یا رب العالمین

@mmasief

Shares: