عالمی شہرت یافتہ اداکار،میزبان ضیاء محی الدین کا مختصر تعارف

0
87

ضیاء محی الدین 20 جون 1933ء کو لائل پور (فیصل آباد) میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان روہتک (ہریانہ) سے تعلق رکھتا تھا۔ انہوں نے ابتدائی زندگی قصور اور لاہور میں گزاری۔

آپ وہ واحد ادبی شخصیت تھے جن کے پڑھنے اور بولنے کے انداز کو عالمی شہرت نصیب ہوئی اردو طنزو مزاح کے بادشاہ مشتاق احمد یوسفی نے ضیاء محی الدین کے بارے میں ایک جگہ لکھا تھا کہ ضیاء اگر کسی مردہ سے مردہ ادیب کی تحریر پڑھ لے تو وہ زندہ ہوجاتا ہے۔

برطانیہ میں 1960ء میں عالمی شہرت یافتہ ادیب ایڈورڈ مورگن فوسٹر کے مشہور ناول ”A Passage to India“ پر بنے اسٹیج ڈرامے میں ضیاء محی الدین صاحب نے ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کر کے عالمگیر شہرت حاصل کی۔ انہوں نے اس ڈرامے میں ایسی شاندار اور باکمال پرفارمنس دی کہ شائقین حیرت زدہ رہ گئے۔
اس کے علاوہ ان کے انگریزی ٹی وی ڈراموں میں ”ڈینجرمین، دی ایونجرز مین، ان اے سوٹ کیس، ڈیٹیکٹو، ڈیتھ آف اے پرنسس، دی جیول پرائڈ، ان دی کرائون اور فیملی“ سرفہرست ہیں۔

ضیاء محی الدین نے اپنے فلمی سفر کا آغام 1962ء میں ہالی ووڈ کی مشہور زمانہ کلاسیکی فلم ”لارنس آف عریبیہ“ سے کیا تھا۔
اس فلم میں انہوں نے عربی بدو کا کردار ادا کیا جسے عمر شریف اس بنا پر گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے کیوں کہ وہ غلط کنویں سے پانی پی لیتا ہے۔ اگرچہ انھوں نے اس فلم میں مختصر کردار ادا کیا لیکن یادگار پرفارمنس دی۔
ان کی مشہور انگریزی فلموں میں ”خرطوم، دی سیلر فرام جبرالٹر، بمبئے ٹاکی اور پارٹیشن‘‘ بھی شامل ہیں۔

1969ء اور 1973 ء میں انہوں نے پی ٹی وی سے ایک اسٹیج شو ’’ضیاء محی الدین شو‘‘ کا آغاز کیا اور بطور میزبان ایسی پرفارمنس دی کہ مقبولیت کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ اس پروگرام کے ذریعے انہوں نے اردو ادب کی توجیح و تشریح اور پاکستانیوں میں اردو زبان سے محبت بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے قوم کو احساس دلایا کہ اردو زبان دنیا کی سب سے خوبصورت زبان ہے جس کے لہجے میں الہامی کیفیت ہے، اسی لیے ضیاء محی الدین کو اردو زبان کا سب سے حسین و دلکش لہجہ کہا جاتا تھا۔

اس شو کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے اختتام پر وہ ایک منفرد ڈانس کیا کرتے تھے، جو شائقین کے دلوں کو بہت بھاتا تھا اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن سے جو پروگرام پیش کیے ان میں پائل، چچا چھکن، ضیاء کے ساتھ اور جو جانے وہ جیتے کے نام سب سے نمایاں ہیں۔

انہوں نے اردو زبان کے نایاب شاعر و فلسفی مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے خطوط جس انداز میں پڑھے، اس سے بھی انہیں بہت شہرت ملی۔
ضیاء محی الدین نے دو کتابیں ”دی گاڈ آف مائی ایڈولیٹری“ اور ”اے کیرٹ از اے کیرٹ: میموریز اینڈ ریفلیکشنز“ بھی تخلیق کی تھیں۔

آپ کو 2003ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز اور 2012ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا انہیں پیپلز پارٹی دور میں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی اور 2004ء میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا۔

Leave a reply