تجزیاتی رپورٹ: رضی طاہر
ریاستیں، ادارے اور قومیں تبھی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جب جمود سے نکل کر ترقی کی منازل طے کریں، فرسودہ نظام کے بجائے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالیں، لیکن ان مراحل کو طے کرنے کے بھی کچھ اصول ہیں اگر ان اصولوں سے روگردانی کی جائے گی تو ترقی وبال بن جائے گی، میرٹ کا قتل عام ہوگا۔ ایم ڈی کیٹ کے حالیہ ٹیسٹ کی مثال بھی کچھ ایسی ہے، اٹھارہویں ترمیم کا گلا گھونٹتے ہوئے جب میڈیکل کے ٹیسٹ وفاق میں لیے گئے تو آن لائن ٹیسٹ کی ترقی کو طلباء کیلئے وبال بنادیا گیا اور میرٹ کے قتل عام کا جو فارمولا اپنایا گیا اس پر خود پی ایم سی بھی شرمندہ شرمندہ دکھائی دیتی ہے۔ پی ایم سی کی نااہلی اور ٹیسٹ میں بے ضابطگیوں کے خلاف اسلام آباد میں گزشتہ کئی روز سے طلباء سراپا احتجاج ہیں اور ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ٹیسٹ ایک دن اور دوبارہ لیے جائیں، یوں تو طلباء کو کئی شکایات ہیں لیکن ہم چند شکایات کا چیدہ چیدہ ذکر کیے دیتے ہیں
سب سے پہلے میرٹ کا قتل عام ایسے ہوئے کہ ٹیسٹ کو ایک دن لیے جانے کے بجائے ایک ماہ تک محیط کیا گیا، عام سمجھ میں آنیوالا اعتراض ہے کہ یکم اگست کو ٹیسٹ دینے والے طالب علم اور یکم ستمبر کو ٹیسٹ دینے والے طالب علم کو یکساں تیاری کا موقع نہ مل سکا، جبکہ دونوں کے پیپرز میں بھی فرق ہے، ایک بیج کیلئے ٹیسٹ آسان ہے تو دوسرے بیج کو مشکل ٹیسٹ کے مرحلے سے گزارہ گیا ہے، اور نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ کئی ٹیسٹ پہلے ہی منظرعام پر آچکے ہیں جو کہ دھرنے کی قیادت کرنے والے چوہدری عرفان یوسف نے میڈیا کو دکھائے بھی ہیں، دوسرا اعتراض یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے مسائل رہے اور انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ سوال کو دوبارہ درست کرنے کی کوششیں بھی ناکام گئیں، اب اس حقیقت سے منہ کیسے چھپایا جائے کہ انٹرنیٹ پورے پاکستان میں ایک جیسا میسر نہیں ہے، شمالی پنجاب میں اگر چار جی دوڑ رہا ہوتا ہے تو شمالی علاقہ جات میں ٹو جی کی بھی رسائی بمشکل ہوجاتی ہے، اسلام آباد کے ہی ایک حصے میں انٹرنیٹ کی سپیڈ دوسرے حصے سے زیادہ اور کم ہوتی ہے
انٹرنیٹ کے مسئلے کو ایک طرف رکھیں تو دوسرا مسئلہ سوال کی درستگی نہ ہونے کا ہے، طالب علم جب اپنا جواب ٹھیک کردیتا ہے لیکن سافٹ وئیر کا کمال دیکھیں وہ اسے ٹھیک نہیں کرتا، کیونکہ اس کی ضد ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو فیل کیا جائے، تیسرا بڑا اعتراض نصاب کے باہر سے سوالات کا ہے، وہ سوالات ایڈ کیے گئے ہیں جو طالب علم کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے اور نہ ہی نصاب میں شامل ہیں، ایم ڈی کیٹ کے ٹیسٹ میں اعتراضات کی بھرمار ہے، اس کیلئے طلبا ء سراپا احتجاج ہیں اور احتجاج میں کوئی عام نہیں ہے اس کے روح رواں طلباء حقوق کیلئے جدوجہد کی تاریخ رکھنے والے چوہدری عرفان یوسف ہیں، عرفان یوسف اور تحریک منہاج القرآن کا طلبہ ونگ مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ دھرنے کی قیادت کررہا ہے
یہ وہی ڈی چوک ہے جہاں پر چار حلقوں میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف کچھ سال قبل عمران خان صاحب اور ماڈل ٹاؤن سانحہ کو لے کر جناب ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب سراپااحتجاج تھے اور دھرنا مہینوں طول پکڑ گیا اب دولاکھ طلباء کے ساتھ ہونیوالی دھاندلی کے خلاف میڈیکل کے طلباء سراپا احتجاج ہیں، حکومت کو چاہیے کہ ان کے مطالبات پر غور کرے اور اعتراضات کی تحقیق کیلئے کمیٹی تشکیل دی جائے اور امتحانات کے رزلٹس کو کمیٹی کی حتمی سفارشات تک روکا جائے، ضروری ہے کہ اس کمیٹی میں احتجاجی طلباء کے بھی نمائندگان شامل ہوں، میں احتجاج کرکے اپنا حق لینے والے طلباء کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہوں یقینا انہوں نے جدوجہد کی مثال قائم کی ہے۔