پی ٹی ایم تحریک طالبان پاکستان کے طرز عمل پر… غنی محمود

0
36

پشتون تحفظ موومنٹ PTM کی بنیاد 2014 میں تحریک طالبان پاکستان TTP کی ناکامی کے بعد رکھی گئی جو کہ درحقیقت TTP کا سیاسی ونگ ہے اس تنظیم کا لیڈر منظور محسود جو کہ اب منظور پشتین کے نام سے مشہور ہے TTP کے ٹاپ کمانڈر قاری محسن محسود کا سگا بھائی ہے اور خود بھی TTP کا سر گرم کارکن رہ چکا ہے اس تنظیم کی مشہوری جنوری 2018 میں بدنام زمانہ سندھ پولیس کے ایس ایس پی راءو انوار کے ہاتھوں بیگناہ نقیب اللہ معسود کی ماورائے آئین و عدالت شہادت سے ہوئی اس سے پہلے لوگ اس تنظیم سے اتنے زیادہ واقف نا تھے یوں تو اس ٹولے کا ایجنڈہ لاپتہ افراد کی بازیابی شمالی وزیرستان سے فوجی چیک پوسٹوں کا خاتمہ ہے مگر آہستہ آہستہ ان کے منشور میں شامل پاکستان مخالف ایجنڈہ بھی سامنے آنے لگا جس میں کئی بار ان کے کارکنان ناجائز اسلحہ،منشیات اسمگلنگ اور افغانی خود کش بمباروں کی معاونت میں پکڑے گئے اور یوں ان پر ریاست پاکستان کے ساتھ غداری کے جرم میں مقدمات بھی بنتے رہے ان کا پاک فوج کے خلاف نعرہ ،یہ میجر ،کرنل ،جنرل سب بیغیرت بھی شدت اختیار کرتا چلا گیا جسے پاک فوج کے جوان اور افسران برداشت کرتے چلے گئے ایسے ہی مقدمات میں ملوث کارکنان کو چھروانے کی خاطر اور لوگوں میں پاک فوج کے خلاف نفرت پیدا کرنے کیلئے 26 مئی 2019 صبح تقریبا 10 سے گیارہ بجے کے درمیان پشتون تحفظ موومنٹ کے شدت پسند جھتے جس کی قیادت محسن داور ایم این اے NA 48 اور علی وزیر ایم این اے NA 50 لیڈران تنظیم ہذہ کر رہے تھے اور اس جتھے میں بیسیوں کارکنان ساتھ تھے ان لوگوں نے خر کام چیک پوسٹ بویا شمالی وزیرستان میں پاک فوج کے خلاف نفرت انگیز نعرے بازی کی اور پوسٹ پر موجود اہلکاروں سے بدتمیزی بھی کی تاہم سیکیورٹی فورسز کی جانب سے صبر کا مظاہرہ کیا گیا ان کے کارکنان نے فوج کے جوانوں کو ویڈیو بنانے سے روکا اور مذید اشتعال انگیز نعرے بازی کی اور خار دار تار پار کرکے جوانوں سے ہاتھا پائی بھی کی ہاتھا پائی کے دوران علی وزیر اور محسن داور کے گارڈز نے چیک پوسٹ کی جانب سیدھی فائرنگ کی جس سے 5 فوجی جوان زخمی ہو گئے بعد میں فوج نے دفاعی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 3 کارکن جانبحق جبکہ 8 زخمی ہوئے جنہیں علی وزیر اور محسن داور چھوڑ کر بھاگ نکلے تاہم فوری پیچھا کرتے ہوئے فوج نے 8 کارکنان سمیت علی وزیر کو گرفتار کر لیا اور انہی کے زخمی کارکنان کو فوری سی ایم ایچ پشاور علاج کیلئے پہچایا گیا جہاں 2 فوجی جوان شہید ہو گئے اسی فوج کہ جن کو یہ ناپاک اور مرتد فوج کہتے ہیں نے انہی دہشتگردوں کا علاج معالجہ شروع کیا اب سوچنے کی بات ہے ہے کارکنان اور فوج کے درمیان فساد برپا کروا کر یہ دونوں لیڈر کیوں بھاگے ؟ صرف اس لئے کہ فوج اور کارکنان کے تصادم کو بنیاد بنا کر دنیا میں فوج کا امیج خراب کیا جائے مگر یہ لوگ بھول گئے کہ ناں تو یہ بنگال ہے اور ناں ہی 1971 ان شاءاللہ پوری قوم بشمول غیور پشتونوں کے اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی ان شاءاللہ انڈین لے پالک TTP کی طرح یہ ناکام ہوچکے ہیں اور ان کے ارادے مذید خاک آلود ہونگے ان شاءاللہ

Leave a reply