سپریم کورٹ نے سگی بیٹی سے زیادتی کے الزام میں 12 سال سے جیل میں قید والد کو بری کردیا –

سپریم کورٹ کے جسٹس علی باقرنجفی کا تحریر کردہ 10 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا گیا جب کہ جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس سنا تھا،سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ و ٹرائل کورٹ کی جانب سے سنائی گئی عمر قید کی سزا بھی کالعدم قرار دے دی ہے،عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ اگر ملزم کسی اور مقدمے میں مطلوب نہ ہو تو اسے فوری طور پر رہا کیا جائے۔

حکم نامے کے مطابق 2 اکتوبر 2010 کو متاثرہ بچی، جو اس وقت 6 یا7 برس کی تھی، روتی ہوئی اپنی ماں کے پاس گئی اور انکشاف کیا کہ اس کے والد نے اس کے ساتھ ’فعل بد‘ کیا ہے جس کے بعد اسے شدید تکلیف محسوس ہوئی،اس کے بعد والد کو گرفتار کر لیا گیا اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 376(1) کے تحت عمر قید اور 35 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی، 2013 میں لاہور ہائی کورٹ نے بھی یہ سزا برقرار رکھی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ متاثرہ بچی کا بیان ریکارڈ کرتے وقت اس کی ذہنی پختگی کا ٹیسٹ نہیں لیا گیا جب کہ قانونِ شہادت کے تحت بچے کا بیان تب معتبر ہے، جب جج اس کی سمجھ بوجھ پر مطمئن ہو، متاثرہ کے بیان میں تضادات پائے گئے اور اس میں واقعے کی تاریخ اور وقت واضح نہیں تھا، ڈاکٹر کی رائے بھی متضاد تھی، پہلے زیادتی کہا پھر جرح میں انکار کیا مدعیہ والدہ اور ماموں واقعے کے عینی شاہد نہیں، صرف افواہی گواہ ہیں، خاندان کے اندر جائیداد اور گھریلو جھگڑوں کا تنازع بھی ریکارڈ پر آیا عدالت نے استغاثہ کے شواہد کو غیر معتبر قرار دے دیا۔

جسٹس نجفی نے کہا کہ ’اس سے عدالت کے سامنے متاثرہ بچی کے بیان کی ساکھ اور ملزم کے غلط طور پر ملوث کیے جانے کے امکان پر سنگین سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں، ایسے سنگین الزامات کیوں عائد کیے گئے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ریکارڈ میں آیا ہے کہ شکایت کنندہ اور ملزم کے درمیان تنازع موجود تھا-

واضح رہے کہ 2010 میں چھ سالہ بیٹی نے والد پر زبردستی زیادتی کا الزام لگایا تھا، جس پر ٹرائل کورٹ نے ملزم کو عمر قید اور 35 ہزارروپے جرمانے کی سزا سنائی تھی،لاہورہائیکورٹ نے 2013 میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا تاہم ملزم نے ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

Shares: