نیپال میں احتجاج کے دوران 13 ہزار 500 قیدی جیلوں سے فرار ہو گئے۔

نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں کرفیو نافذ، فوجی گشت پر مامور، پارلیمان اور اہم سڑکوں کی نگرانی کر رہے ہیں، جبکہ سابق چیف جسٹس سشیلہ کرکی نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ’جنریشن زی احتجاجی مظاہرین‘ کی درخواست پر عبوری حکومت کی قیادت قبول کر لی ہے،یہ پیشرفت 2 روزہ خونریز کرپشن مخالف احتجاج کے بعد سامنے آئی ہے-

گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر پابندی کے اعلان کے بعد حالات کشیدہ ہونا شروع ہوئے اگرچہ پابندی واپس لے لی گئی، لیکن پیر کو پولیس کی جانب سے مظاہرین پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کے استعمال کے نتیجے میں 19 افراد ہلاک ہوئے بدھ تک ہلاکتوں کی تعداد 25 تک پہنچ گئی اور 633 افراد زخمی ہوئے۔

احتجاج کے دوران بڑی تعداد میں قیدی جیلوں سے فرار ہوگئےنیپالی پولیس کے ترجمان کے مطابق ملک بھر کی مختلف جیلوں سے 13 ہزار 500 قیدی بھاگ نکلے ہیں جبکہ جھڑپوں کے دوران 3 پولیس اہلکار ہلاک ہوئسوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ کٹھمنڈو کی دلی بازار جیل سے سینکڑوں قیدی فرار ہوئے جنہیں فوجی اہلکار روکنے کی کوشش کرتے رہے۔

صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس زیادہ تر علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے اور صرف ہیڈکوارٹرز تک محدود ہے، جب کہ نیپالی فوج نے دارالحکومت میں گشت شروع کر دیا ہے اور لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا۔

فوج کے سربراہ جنرل اشوک راج سگڈیل نے عوام سے اپیل کی ہے کہ احتجاج ختم کریں اور مذاکرات کا راستہ اختیار کریں،نیپالی فوج نے کہا ہے کہ متعلقہ فریقین حالات کو قابو میں لانے اور بحران حل کرنے کے لیے مشاورت کر رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین اور حکام کے درمیان مذاکرات کی تیاری کی جا رہی ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری رمن کمار کرنا کے مطابق نوجوان مظاہرین نے کرکی کو عبوری وزیراعظم کے طور پر تجویز کیا ہے، جسے کرکی نے بھارتی نیوز چینل سی این این نیوز 18 سے گفتگو میں تسلیم کیا کہ جب انہوں نے مجھ سے درخواست کی تو میں نے قبول کر لی۔

کٹھمنڈو کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ 24 گھنٹے بند رہنے کے بعد بدھ کو دوبارہ کھول دیا گیا،نیپالی فوج نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ کرفیو جمعرات کی صبح تک نافذ العمل رہے گا فوج نے خبردار کیا کہ کسی بھی قسم کے احتجاج، توڑ پھوڑ، لوٹ مار، آتشزدگی اور افراد یا املاک پر حملے کو جرم تصور کیا جائے گا اور سخت کارروائی کی جائے گی۔

واضح رہے کہ پیر کو سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف نوجوانوں کے احتجاج نے شدت اختیار کی تھی، جس کے دوران مظاہرین نے پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی اور پولیس سے جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں ہوئیں،بعدازاں صورتحال مزید خراب ہوئی اور وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا تاہم مظاہرین نے احتجاج ختم نہیں کیا اور مختلف سرکاری و نجی عمارتوں پر حملے اور توڑ پھوڑ جاری رکھی۔

نیپال کی معیشت طویل عرصے سے مشکلات کا شکار ہے، روزگار کی کمی کے باعث لاکھوں نیپالی شہری خلیجی ممالک، ملائیشیا اور جنوبی کوریا میں تعمیراتی مقامات پر کام کرنے پر مجبور ہیں تاکہ اپنے گھر والوں کو پیسے بھیج سکیں، یہی معاشی بدحالی اور بدعنوانی نوجوانوں کے شدید احتجاج کا سبب بنی، جسے ’جنریشن زی مظاہرے‘ کہا جا رہا ہے۔

Shares: