14-اکتوبر1092یوم وفات نظام الملک طوسی—-از— تاریخ کے سنہری اوراق سے

0
66

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے،آج 2019 ہے اور اکتوبر کی 14 تاریخ ، یہ پہلی مرتبہ نہیں‌بلکہ جب سے شمسی مہینوں کا نظام شروع ہوا ہے ہر سال آتی ہے ، اسی 14 اکتوبر کوعالم اسلام کے ایک بہت بڑے مدبر حکمران نظام الملک طوسی اس دنیا فانی سے کوچ کرتے ہیں اور ایک تاریخ چھوڑ جاتے ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے رقم ہوگئی

قبل اس کے کہ نظام الملک طوسی کی سنہری زندگی کے اوراق کھولے جائیں ہارون الرشید کا دور برامکہ کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے اسی طرح سلجوقیوں کا عہد نظام الملک طوسی کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔ نظام الملک کا اصل نام حسن بن علی اور لقب نظام الملک تھا۔ وہ طوس کے ایک زمیندار علی کا بیٹا تھا۔ 408ھ میں پیدا ہوا اور بچپن سے ہی بہت ذہین اور کئی خوبیوں کا مالک تھا۔ اپنی ذہانت سے انتہائی کم عمری میں کئی علوم پر عبور حاصل کیا۔ سلجوقی عہد میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوا۔

مقبوضہ کشمیر: کرفیوکا 71 واں دن،بھارتی فوج کے مظالم ، کشمیریوں کی مزاحمت جاری

اس عہد کے تمام کارنامے نظام الملک کے تیس سالہ دور وزارت کے مرہون منت ہیں۔ یہ عہد سلجوقیوں کا درخشاں عہد کہلاتا ہے۔ الپ ارسلان جو ایک مجاہدانہ صفت رکھنے والا بادشاہ تھا نے اپنے کمسن بیٹےملک شاہ کو نظام الملک کے سپرد کردیا تا کہ وہ اسکی تربیت کرے اور عصری علوم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ حکومت کرنے کے ڈھنگ بھی سکھائے۔ انہی دنوں گرجستان کی مہم پیش آئی جس کیلئے فوج کو نظام الملک کی سربراہی میں بھیجا گیا ۔ گرجستان والوں نے ہتھیار پھینک دئے اور مسلم فوج کی شرائط پر صلح کرلی۔ جارجیا کے بادشاہ بقراط کی بھتیجی ہیلینا جو ایک حسین و دلکش دوشیزہ تھی مگر راہبانہ زندگی گزاررہی تھی۔

خواجہ حسن نظام الملک اس سے شادی کرنے کا خواہش مند تھا مگر حالات کے برعکس اس شہزادی ہیلینا کو الپ ارسلان سے نکاح کیلئے مخصوص کرلیا گیا اور شرائط میں اس شرط کو بھی شامل کیا گیا جس پر عیسائی آبادی میں غم و غصہ پایا جانے لگا جبکہ دوسری طرف گرجستان کے اعلیٰ و شاہی خاندان کے نوجوان بھی شہزادی کے طالب تھے مگر اسکی راہبانہ زندگی کے پیش نظر اس سے مدعا بیان نہ کرسکتے تھے۔

پردیسیوں کی قسمت جاگ اٹھی ، یونان میں موقع مل گیا

شہزادی کوالپ ارسلان کے نکاح میں دے دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد ایک گرجستانی شاعر جو الپ ارسلان کے دربار میں آیا ہوا تھا نے ایک قصیدہ موزوں کرکے گوش گزارنے کی اجازت طلب کی۔ الپ ارسلان نے اجازت دے دی تو اس گرجستانی شاعر نے انتہائی واہیات انداز میں شہزادی ہیلینا اور نظام الملک طوسی کی کردار کشی کی جس کے بعد الپ ارسلان نے اس شرط پر شہزادی ہیلینا کو طلاق دے دی کہ نظام الملک اس سے شادی کرے یا شہزادی گرجستان واپس چلی جائے مگر شہازدی نے واپس جانے سے اس بنا پر انکار کیا کہ اب میری وہاں پہلے والی عزت نہیں رہے گی اور یہ کہ وہ خود کو مسلمانوں میں محفوظ و مامون محسوس کرتی ہے لہذا اس نے نظام الملک سے شادی کرلی سلجوقی سلطان الپ ارسلان نے نظام الملک کی صلاحیتوں کا اندازا لگاتے ہوئے وزارت کا منصب اس کے سپرد کردیا۔

اس نے الپ ارسلان کے عہد میں ایسے جوہر دکھائے کہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی ہزاروں شمعیں روشن ہوگئیں۔ اس نے ملک کو گوشے گوشے میں مدارس کا جال بچھا دیا اور سب سے بڑا اور اہم مدرسہ بغداد کا مدرسہ نظامیہ تھا جس کی تعمیر پر بے پناہ روپیہ صرف کیا گیا۔ اس کے علمی و ادبی کارناموں کی طویل فہرست کے ساتھ مذہبی اور دینی خدمات بھی بے شمار ہیں اور رفاہ عامہ کے کارنامے تاریخ پر انمٹ نقوش ثبت کرتے ہیں۔ اس کی تحریر کردہ کتاب “سیاست نامہ” کو انتہائی شہرت حاصل ہوئی اور اس سے آج بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ یورپ کی مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے۔

فیصل واڈا کو ترس آگیا

عروج کی انتہائی بلندیوں تک پہنچنے کے بعد برامکہ کی طرح اس کی قسمت کا ستارہ بھی زوال میں آگیا اور ملک شاہ اول نے اسے وزارت سے علاحدہ کردیا۔ زوال کے اسباب بھی برامکہ کے اسباب کی طرح تھے۔ بہرحال اس کے کارنامے سلجوقی حکومت کے لئے لاتعداد ہیں بلکہ اس درخشاں دور کی کامیابیاں سلجوقی سلاطین کے علاوہ اس کی مرہون منت بھی ہیں۔وہ 1063ء تا 1072ء الپ ارسلان کے دور حکومت اور 1072ء تا 1092ء ملک شاہ اول کے دور حکومت میں وزارت کے عہدے پر فائز رہا۔

نظام الملک نے اپنی مشہور تصنیف “سیاست نامہ” میں سلطنت کو قانونی شکل دینے کے لئے ایک جدید نظریے کی بنیاد رکھی اور سلطان کو نئے معنی سے مدلل کرنے کی کوشش کی۔ مصنف نے سلطنت کی ابتدا اور سلطان کے معنی پر بحث کی ہے۔
علاوہ ازیں اس نے اپنے بیٹے ابو الفتح فخر الملک کے لئے ایک کتاب “دستور الوزراء” بھی تحریر کی۔ نظام الملک 10 رمضان 485ھ بمطابق 14 اکتوبر 1092ء کو اصفہان سے بغداد جاتے ہوئے حسن بن صباح کے فدائین “حشاشین” کے ہاتھوں شہید ہوا۔ مؤرخوں کیمطابق ملک شاہ اول جو خواجہ حسن نظام الملک کو خواجہ بزرگ اور پدر معنوی جیسے القاب سے نوازتا تھا اور خواجہ حسن کو خاص مقام حاصل تھا کہ وہ بادشاہ کےکمرہء خاص یا آرام کرنے کے کمرےمیں بھی آمد و رفت رکھتے تھے۔

چونکہ وہ ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے اور انکو علوم خاص و عام میں رسوخ حاصل تھا۔ ملک شاہ اول کی شادی سلجوقی خاندان کی ایک خاتون جن کا نام زبیدہ خاتون تھا سےہوئی اور انکے بطن سے ملک شاہ اول کا سب سے بڑا بیٹا تولد ہوا۔ ملک شاہ اول نے ایک شادی خانان قاراخانی یا قاراخانی شہزادی سے بھی کی تھی جس کا نام ترکان خاتون تھا۔ کہتے ہیں کہ ملک شاہ اول کے دو بڑے بیٹوں داوود اور احمد جن کا بالترتیب 1082 اور 1088میں انتقال ہوا۔

انکے انتقال کے بعد ترکان خاتون اپنے بیٹےمحمود جو سب سے کم سن تھا کو ولی عہد نامزد کروانا چاہتی تھی جبکہ خواجہ حسن نظام الملک طوسی نے ترکان خاتون کی مخالفت کی اور زبیدہ خاتون کے بڑے بیٹے برکیارق کو ملک شاہ اول کا جانشین و ولی عہد نامزد کرنے پر اصرار کیا جس پر ترکان خاتون کی نظام الملک کے ساتھ سرد جنگ شروع ہوگئی اور اس نے اپنے معتمد خاص تاج الملک االمعروف بہ المزرزبان کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے نظام المک کو ان کے عہدہء وزارت سے ہٹانے کی سازشیں شروع کیں مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکی۔

خواجہ حسن نظام الملک کی وفات کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ بہت سوں کا کہنا ہے کہ ایک دن ملک شاہ اول جو پہلے ہی وزیر مملکت کے خلاف ہونے والی محلاتی سازشوں سے دلبرداشتہ ہورہا تھا کو وزارت سے معزول کردیا اور معزولی کا حکم سننے کے بعد نظام الملک واپس اپنی جاگیر یا بغداد جارہے تھے ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ ملک شاہ اول کے حکم پر ضروری کام سے بغداد جارہے تھے کہ اچانک ایک درویش نے ان سے دادرسی چاہی ، شفیق و مہربان نظام الملک نے دادرسی کرنے کی خاطر اس درویش کو قریب بلایا مگر وہ درویش کے روپ میں قلعہ الموت کی طرف سے بھیجا گیا ایک فدائی تھا اسکا وار خواجہ حسن نظام الملک کیلئے جان لیوا ثابت ہوا۔

پولیس آفیسر وحشی گجر، بیٹے بھی باپ کے نقش قدم پر ، پھر کیا ہوا، ضرور جانیئے

خواجہ حسن جانبر نہ ہوسکے اور خالق حقیقی سے جا ملے انکی وفات پر پورا عالم اسلام اور بالخصوص رے غمزدہ و اداس ہوگیا۔ نوحہ گروں نے نوحہ کیا اور مرثیہ لکھنے والوں نے مرثئے لکھے۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ ان دنوں شیعہ سنی مناظرے منعقد ہوا کرتے تھے جن میں ملک شاہ اول اور نظام الملک طوسی بھی بہ نفس نفیس شریک ہوتے تھے خواجہ حسن بزرگ نظام الملک طوسی کا قتل بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا اور جس دن ان پر حملہ ہوا اسی دن ملک شاہ اول کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا مگر ملک شاہ اول پر حملہ کامیاب نہ ہوسکا۔

Leave a reply