14 فروی ویلنٹائن ڈے یا یوم یکجہتی فلسطین تحریر :غنی محمود قصوری

0
28

ہر 14 فروری کو دنیا بھر میں کفار کا ایک تہوار ویلنٹائن ڈے جسے Saint Valentine’s Day بھی کہا جاتا ہمارے اس ارض پاک پر بھی منایا جاتا ہے
اس دن شادی شدہ و غیر شادی شدہ بے راہ روی کا شکار جوڑے ایک دوسرے کو پھول دے کر اظہار محبت کرتے ہیں اسی لئے اسے Lover,s Festival بھی کہتے ہیں
اس دن کے حوالے سے کوئی مستند روایات موجود نہیں کہا جاتا ہے کہ 1700 میں روم میں ایک سینٹ ویلنٹائن نامی راہب تھا جسے ایک (Nun) نن نامی راہبہ سے عشق ہو گیا مسیحیت میں کسی راہب یا راہبہ کا نکاح و جنسی تعلقات سخت ممنوع ہیں مگر عشق و محبت کے مارے راہب سینٹ ویلنٹائن نے نن راہبہ سے جنسی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی جسے راہبہ نے ٹھکرا دیا سو افسانوی کہانی سناتے ہوئے سینٹ ویلنٹائن نے نن سے کہا کہ مجھے خواب آیا ہے کہ اگر ہم 14 فروری کو جنسی تعلقات قائم کرلیں تو کوئی گناہ نہیں ہوگا جسے نن نے مان لیا اور یوں دونوں مذہب کے رکھوالے مذہب کی عہد شکنی کرگئے جس کا علم کلیسا کو ہو گیا
چونکہ یہ واقعہ کلیسا کی روایات کے سخت خلاف تھا اس لئے انہیں فوری قتل کر دیا گیا اور یوں ان دین سے بیزاروں خود ساختہ عاشقوں کی کہانی اس وقت کے جوان بے راہ روی پر مبنی جوڑوں تک پہنچی تو انہوں نے اس پریم کہانی کو زندہ کرنے کیلئے 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانا شروع کر دیا حالانکہ خود مسیحیت میں بھی اس دن کو برا سمجھا جاتا ہے مگر پھر بھی ہمارے ملک میں اسے بڑے جوش و جذے کیساتھ منایا جاتا ہے مگر میرے آقا علیہ السلام نے کفار کی مشہابت کی سخت مخالفت کی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے۔صحیح بخاری 3329
حدیث کی رو سے کفار کی مشہابت اختیار کرنے والے کا دین اسلام اور جناب محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں
اب آتے ہیں اس بے ہودہ دن ویلنٹائن ڈے کو یوم یکجہتی فلسطین میں بدلنے پر تاکہ ہمارے مسلمان اس بے ہودہ دن کو بھول کر اپنے قبلہ اول کی آزادی کی خاطر کھڑے ہو سکیں اور جان سکیں کے مسئلہ فلسطین آخر ہے کیا
لبنان اور مصر کے درمیانی علاقے کو فلسطین کہتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں تعمیر ہونے والی مسجد بیت المقدس بھی اسی علاقے فلسطین میں ہے مکہ مکرمہ سے پہلے یہی مسلمانوں کا قبلہ اول تھا اور مسلمان اسی کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے تھے
عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش اور تبلیغ کا مرکز بھی یہی فلسطین ہے مکہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریبا 1300 کلومیٹر ہے
1948 سے پہلے تک فلسطین ایک آزاد خودمختار مسلم ریاست تھی اور اس کا دارالحکومت بیت المقدس تھا
1947 میں عیسائی برطانیہ نے مسئلہ فلسطین کو الجھائے رکھا اور یہودیوں کو فنڈنگ کرکے انہیں مضبوط کیا اور یوں یہودی فلسطینی علاقوں پر قابض ہوتے چلے گئے مکار یہودیوں نے 14 اور 15 مئی 1948 کی درمیانی شب تل ابیب میں اسرائیلی ریاست کا اعلان کر دیا جس پر عربوں اور اسرائیلیوں کے درمیان مسلح تصادم شروع ہو گئے
اقوام متحدہ میں کشمیر کی طرح مسئلہ فلسطین بھی آج دن تک جو کا تو ہے 29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے روس و امریکہ کی فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز کو دو تہائی اکثریت سے قرار داد نمبر 181 کے تحت منظور کر لیا جسے عربوں نے سخت نامنظور کیا جس کے نتیجے میں بعد میں عربوں اور اسرائیلیوں کے درمیان مسلح تصادم جنگوں میں بدل گئے تھے
1967 میں ظالم یہودی نے اپنی غلام و لونڈی سلامتی کونسل کے غیر جانبدارانہ رویے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیت المقدس پر بھی قبضہ کر لیا
کافروں کی لونڈی سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ فلسطین میں بھی اپنا کوئی کردار ادا نا کر سکی اور 29 نومبر 1977 کو کو عالمی یوم یکجہتی فلسطین منطور کرلیا کہ بس مسلمانوں تم محض ایک دن منا لیا کرو اور آہستہ آہستہ فلسطین اپنے قبلہ اول کو بھول جاءو
بیت المقدس عیسائیوں ،یہودیوں اور مسلمانوں کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے جس کا اندازہ اس حدیث سے لگاتے ہیں

سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لائے، میں اس وقت رو رہی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو؟ کیا بات ہے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول ! دجال کا فتنہ یاد آنے پر رو رہی ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میری زندگی میں دجال آ گیا تو میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمہاری طرف سے کافی ہوں گا اور اگر وہ میرے بعد نمودار ہوا تو اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے گا اور یاد رکھو کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے، وہ اصبہان کے یہودیوں میں ظاہر ہوگااور مدینہ منورہ کی طرف آ کر اس کے ایک کنارے پر اترے گا، ان دنوں مدینہ منورہ کے سات دروازے ہوں گے، اس کی حفاظت کے لیے ہر دروازے پر دو دو فرشتے مامور ہوں گے، مدینہ منورہ کے بد ترین لوگ نکل کر اس کے ساتھ جا ملیں گے، پھر وہ شام میں فلسطین شہر کے بَابِ لُدّ کے پاس جائے گا، اتنے میں عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوکر اسے قتل کر دیں گے، اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام زمین پر ایک عادل اور مصنف حکمران کی حیثیت سے چالیس برس گزاریں گے۔ مسند احمد 13015
اس حدیث سے ثابت ہوا دجال یہودیوں میں ظاہر ہو گا اور اس وقت یہودی اسرائیل یعنی سابقہ فلسطینی علاقوں میں رہ رہے ہیں اور مسیحیت کے پیشوا جناب عیسی علیہ السلام بھی شام و فلسطین کے علاقے لد میں آسمان سے نازل ہونگے اور یہی پر مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن دجال کا خاتمہ ہو گا ان شاءاللہ اس لئے یہودی و عیسائی ہر حال میں فلسطین پر قابض رہنا چاہتے ہیں جو کہ ناممکن ہے فلسطینی مجاہدین و عوام 7 دہائیوں سے یہودیوں کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے اور ان کا ہر محاذ پر مردانہ وار مقابلہ کیا جا رہا ہے لہذہ ہمارا بھی مسلمان ہونے کی حیثیت سے حق بنتا ہے کہ ہم بھی جاری تحریک آزادی قبلہ اول میں اپنا کردار ادا کریں
تو میرے عظیم پاکستانی بہن بھائیوں کافر کے ویلنٹائن ڈے کا بائیکاٹ کرکے اپنے قبل اول کی آزادی کی خاطر فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے اس 14 فروری کو بطور یوم یکجہتی فلسطین منائیں

Leave a reply