"یہ غم انگیز سولہ دسمبر، اصل غم کس بات کا ہے” محمد عبداللہ

آج سولہ دسمبر ہے سقوط ڈھاکہ اور سقوط پشاور کی یاد دلاتا یہ دن ایک ایسا گھاؤ ہے سانسوں کے بند ہونے کے بعد ہی شاید مندمل ہوسکے. شہادتوں پر افسوس نہیں ہے شہادتیں تو ہمارے لیے سرمایہ افتخار ہیں.
شہادتیں تو تحاریک اور جذبوں کو جلا بخشتی ہیں. وہ شہادتیں البدر و الشمس کے نوجوانوں کی ہوں یا آرمی پبلک اسکول کے معصوم پھولوں کی، وہ لہو بڑا ہی مقدس ہے وہ وردی پہنے نوجوان کا ہو یا کشمیر کی وادیوں میں بغیر وردیوں کے لڑنے والے مجاہدین کا…
دکھ اور سانحہ تو اس بات کا ہے کہ آج کے دن ملک دو لخت ہوا . بھائی بھائی کا دشمن ہوا، پاکستان سے وفا کی پاداش میں ہزاروں مردوں کا خون بہا تو ہزاروں خواتین کی عصمت دری ہوئی. دشمن کو موقع ملا اور اس نے کھل کر تقسیم برصغیر کا بدلہ لیا.
ان سب سے بڑھ کر غم انگیز بات یہ ہے کہ افواج پاکستان کو شکست ہوئی اور شکست بھی ایسی کہ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالےگئے. اور ہزاروں پاکستانی فوجی، سرکاری عملہ، سول لوگ مکار دشمن کے قیدی بن گئے.
اسلامی تاریخ میں یوں اسلامی فوج کا ہتھیار ڈالنا یہ بہت کم ہی ملتا ہے. یہی وجہ ہے کہ زیادہ دکھ یہی بات دیتی ہے کہ ہم تو عجب شان سے جیا کرتے ہیں اور ایسا بھی نہیں کہ پاکستانی فوج نے کوئی بزدلی دکھائی بلکہ بھارتی فوج کے جرنیلوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان کی فوج اپنے بیس کیمپ سے دور کم اسلحے اور سازوسامان کے باوجود بہادری اور دلیری سے لڑی.
لیکن میدانوں کی جنگیں ہم نے اکثر ہی میزوں پر ہاری ہیں تو سیزفائر کی قرار داد کو پھاڑ کر بھٹو نے اس شکست کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی وگرنہ سیز فائر کے آپشن سے اس شکست سے بھی بچا جاسکتا تھا اور ہزاروں سول و ملٹری کی شہادتوں کے بغیر بھی سیاسی حل ہوسکتا تھا.
اکہتر کا دوش سارے کا سارا مجیب الرحمن کو دینا قطعاً ناانصافی ہے. ایوب دور اور اس سے پہلے ادوار میں مشرقی پاکستان کے لوگوں سے روا رکھی جانے والی ناانصافیوں، بیوروکریسی کوٹہ کی دھجیاں، زبان کا مسئلہ، انتہا کی غربت اور اس کوئی حل نہ ہونا، جنرل یحیٰ کے بیوقوفانہ فیصلے اور پھر جاکر بھٹو مجیب کی اقتدار کی ہوس اور اس کے لیے باہمی گٹھ جوڑ یہ وہ عوامل تھے جن کو دشمن نے استعمال کیا اور وہ دن دیکھنا پڑا کہ سر شرم سے جھکے جاتے تھے.
بنگلہ دیشی عوام سے ہمیں کوئی گلہ نہیں ہے وہ ہمارے بھائی ہیں ہمیں ان سے آج بھی اتنی ہی محبت ہے ہم ان کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں. ہمارا دشمن مشترکہ ہے اور وہ ہے انڈیا جس کو مسلم کی ترقی و بالادستی اس خطے میں کسی بھی صورت قبول نہیں ہے.
پاکستان اور بنگلہ دیشی عوام، سیاستدانوں اور سربراہان کو چاہیے کہ تاریخ کے غمناک ابواب سے سبق سیکھ کر لازوال دوستی کا ہاتھ تھامیں اور اس دوستی کی بنیاد پر اس خطے میں بھارت کی تنہائی کے تابوت میں کھیل ٹھونکیں…
بھارت کی بدحواسیاں یوں ہی نہیں ہیں ان کو نظر آرہا ہے کہ امریکہ اس خطے سے شکست کھاکر دفعان ہوچکا ہے جبکہ چین بھارت کے سبھی ہمسائیہ ملکوں میں بھاری سرمایہ کاری کرکے ان کو ایک لڑی میں پرو چکا ہے. اب اس میں بڑا کردار پاکستان اور بنگلہ دیش ادا کرسکتے ہیں.
محمد عبداللہ

Comments are closed.