18 ترمیم اور مسائل تحریر: مریم صدیقہ

ہر کچھ عرصے بعد ملک میں 18 ترمیم کا شور زوروں پہ سنائی دیتا ہے ۔8 اپریل 2010 پیپلز پارٹی کےدور حکومت میں پاکستان کے آئین کی 102 شقوں میں کچھ نمایاں ردوبدل کر کے ترامیم قومی اسمبلی سے منظور کرا لی گئی۔مگر کوئی سیاسی جماعت اس میں مزید ردوبدل کرنے کا عندیہ دیتی نظر آتی ہے تو دوسری طرف کسی کو اس میں تبدیلی سے صوبوں کی خودمختاری خطرے میں لگنے لگتی ہے۔آخر یہ 18 ترمیم پاکستان کے حق میں ہے بھی یا نہیں چلیں آئیں آج اس پہ نظر ڈالتے ہیں۔
18 ترمیم میں دراصل ہے کیا؟
بظاہر تو یہ ترمیم، صوبائی خودمختاری، پارلیمان کی مضبوطی اور نچلے لیول پر اختیارات کومنتقل کرنے کے لیے کی گئی تھی جس سے میثاق جمہوریت کی مثال، ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے، قائم کرنے کی کوشش بھی ہوئی ۔ ان میں سے چند ترامیم یہ ہیں کہ اٹھارویں آئینی ترامیم کے تحت صدر سے ہنگامی صورتِ حال کے نفاذ کا اختیار لے کر پارلیمان کو دیا گیا۔ آئین کو توڑنے اور معطل کرنے کو بھی سنگین غداری قرار اور اسے ناقابلِ معافی جرم قرار دیا گیا۔ صوبائی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے آئین کے کئی آرٹیکلز کو بدل دیا گیا۔اور پاکستان کے شمال مغربی صوبہ سرحد کا نام بدل کر خیبر پختونخوا رکھ دیاگیا۔وفاق سےاختیارات لے کے صوبوں کو زیادہ خود مختار بنا یا۔ وزرائے اعلیٰ اور وزیرِ اعظم کے تیسری مرتبہ منتخب ہونے پر جو پابندی تھی اسے ختم کر دیا۔ صوبوں کو تعزیرات اور فوجداری کے قوانین میں ترمیم کا اختیار دیا گیا۔ فوجی سربراہان کی تقرری میں وزیرِ اعظم کی مشاورت لازمی قرار دی گئی۔ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم ضروری اور اس کی مفت فراہمی کی ذمہ داری ریاست پر عائد کی گئی۔
کیا 18 ترمیم وفاق کے رستے کا پتھر؟
دیکھا جائے تو تین سیاسی جماعتیں جن کا اس ترمیم کی منظوری میں اہم کردار تھا ، تینوں نے اپنے اپنے سیاسی مفادات کو خاصا ملحوظ خاطر رکھا۔سب سے پیپلز پاڑٹی، جن کا سندھ گڑھ ہے اور ان سے زیادہ کسی کے لیے بھی صوبوں کو اختیارات کی منتقلی اتنی اہم نہیں ہو سکتی۔ پھر آتے ہیں نواز شریف ، ن لیگ کے قائد ، جو کہ تیسری بار وزیراعظم بننے کے خواہش مند تھے انہوں نے اس لیے ترمیم میں اپنا پھر پور کردار ادا کیا۔ اور آخر اے –این –پی نے اپنا ووٹ بنک بچانے کے لیے اپنے وٹرز کے کیا وعدہ وفا کیا اور صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے پختونخوا رکھ دیا گیا۔ پر اس سب میں پاکستان کہاں رہ گیا تینوں میں سے کسی نے دھیان نہ دیا۔یہ ترمیم کہاں کہاں وفاق کو کمزور کررہی ہے اس پر بات کرتے ہیں:
– اس میں تمام تر کی جانے والی ترامیم وفاق کو سرے سے کمزور کرتی دیکھائی دیتی ہیں۔جیسا کہ صوبوں کے پاس اب مالی وسائل میں 47اشاریہ 5 فیصد کا شیئر ہے جبکہ وفاق کے پاس 42اشاریہ5 فیصد رہ گیا۔وسائل میں سے زیادہ پر حصہ صوبوں کے پاس مگر بیرونی قرضوں کا تمام تر بوجھ وفاق پر۔ ان بگڑتے معاشی حالات کے ساتھ ترمیم میں شامل یہ بات کہ کسی این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیئر پچھلے سال کے شیئر سے کم نہیں ہو گا ایک الگ مسئلہ ہے۔ وفاق کہاں سے دے گا یہ؟یہ قرض کیسے اتار پائے گا ؟ اب آپ ہی بتائیں دنیا میں کون سا ملک ایسے چلتا ہے؟کہاں وفاق کو اتنا کمزور کر دیا جاتا ہے؟ صوبوں کے پاس اس طرح کے اختیارات سےکیا کرپشن میں مزید اضافہ نہیں ہوگا؟
– وفاق کے پاس دیگر اخراجات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قرضوں کی واپسی کا بھی بوجھ ہوتا ہے اور جب تعلیم اور صحت کے بے شمار اختیارات صوبوں کو دے دیے گئے ہیں تو وفاق کے اعتراضات تو بنتے ہیں۔ پھر جس طرح صوبے ان شعبوں میں اپنا فرض نبھا رہے ہیں اس کا اندازہ ہمیں سندھ کے حالات دیکھ کے بخوبی ہوجاتا ہے۔صوبوں کوبراہ راست غیر ملکی قرضے لینے کا اختیا ر بھی ان ترامیم کے ذریعے دے دیا گیا ۔ کیا اس سے ملک کی معیشت اور وفاق مزید کمزور نظر نہیں آتی؟
– اب جی ایس ٹی کی طرف بھی نظر کر لیتے ۔ پاکستان کا سب سے زیادہ رونیو جینڑیٹ کرنے والا صوبہ سندھ ہے اب جب یہ جی ایس ٹی بھی صوبوں کے پاس جائے گی ملک کے وہ صوبے جہاں اتنا جینڑیٹ نہیں کیا جاتا وہ کہاں جائیں گے؟ کیا وفاق اس معاملے کو زیادہ پہتر انداز میں ڈیل نہیں کر سکتی تھی؟
– وفاق اور صوبوں کے درمیان موجود کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کر کے مرکز کے دائرۂ کار میں آنے والے کئی قانونی اختیارات صوبوں کو منتقل کیا گئے۔ اس سے صوبوں کے درمیان نئی لڑائی نے جنم لیا کہ آئی جی لگانے کا اختیار آخر ہے کس کے پاس ،وفاق یا صوبوں کے پاس ۔
یہ تو بہت مختصرا تجزیہ دیا گیا اگر مزید گہرائی میں جائیں تو ناجانے کتنے صفحے بھر جائیں مگرحالات کو بہتر بنانے کے لیے اب ایک ہی حل دیکھائی دیتا ہے کہ اس اٹھارویں ترمیم کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس میں ہوئی ہر آئینی ترمیم کو بدلا جائےلیکن جہاں مزید ترمیم کی ضرورت ہے اس پہ بحث لازمی ہے کیوں کہ وہ ملک کی ترقی کی راہ میں پتھر کا کردار ادا کررہی ہیں۔مگر جب بھی اس میں بدلاو لانے کی بات کی جاتی ہے تو سب سے زیادہ شور پیپلز پارٹی کی طرف سے اٹھتا ہے لیکن شاید وہ بھٹوجن کے دورمیں آئین بنا ،ان کی وہ سات ترامیم بھول جاتے ہیں جو خاصی ملک دشمن بھی تھیں خیر بات موضوع سے ہٹ جائے گی مگر آخر میں بس اتنا ہی کہوں گی کہ جب بات ملک کے فائدے یا نقصان کی ہو تو ہر سیاسی فائدہ بھول کر ملک کے فائدے کے لیے کھڑے ہونا چاہیے کیوں کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ پاکستان زندہ باد!

@MS_14_1

Comments are closed.