اسلام آباد: جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترمیم کے حکومتی مسودے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لچک کے بغیر اس پر اتفاق ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے حکومت کے ترمیمی مسودے کو غیر قابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت جے یو آئی کی تجاویز پر آمادگی ظاہر کرے تو وہ ووٹ دینے کے قابل ہوں گے۔مولانا فضل الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے دوران اتفاق رائے کے لیے نو ماہ کا وقت لگا تھا، اس لیے موجودہ مسودے کے لیے کم از کم نو دن تو لگیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسودے پر اتفاق رائے اس وقت ہی ممکن ہے جب لچک کا مظاہرہ کیا جائے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ "ہمارے وکلا مسودہ کی کاپیاں دیکھیں گے اور جمعیت علماء اسلام اور پیپلز پارٹی کے درمیان متفقہ مسودہ تیار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔” مزید برآں، انہوں نے حکومت کی دیگر اتحادی جماعتوں کو بھی مسودے پر اعتماد میں لینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ "ہم اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے کی طرف جانا چاہتے ہیں۔
مولانا نے یہ بھی کہا کہ حکومت کے مسودے میں قابل اعتراض مواد کو مکمل طور پر صاف کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج حکومت کی طرف سے پہلی بار مسودے کی کاپیاں تقسیم کی گئیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکومتی مسودے پر غور کا آغاز کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے چیف جسٹس کی متوقع ریٹائرمنٹ کا ذکر کیا اور کہا کہ "چیف جسٹس 25 اکتوبر کو ریٹائرڈ ہوجائیں گے تو ٹھیک ہے۔” ان کی خواہش ہے کہ 19ویں ترمیم کو ختم کرکے 18ویں ترمیم کو بحال کیا جائے تاکہ ججوں کی تقرری میں پارلیمان کا کردار بڑھے۔انہوں نے عدلیہ سے اپیل کی کہ "خدا کے لیے سیاسی جماعتوں میں تقسیم نہ کریں۔” انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدلیہ کو ایک جج کی ریٹائرمنٹ یا توسیع کی بات کرکے تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ ججوں کو اپنے رویے اور کارکردگی کے ذریعے عوام کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے۔مولانا فضل الرحمان نے یہ بات واضح کی کہ آئینی عدالت ہو یا آئینی بینچ، دونوں ایک دوسرے کے متبادل ہوسکتے ہیں، اور اس معاملے کو اصولی طور پر طے کیا جانا چاہیے۔

اٹھارہویں ترمیم کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے 19ویں ترمیم کا خاتمہ ضروری، مولانا فضل الرحمان
Shares: