نیپال کی حکومت نے ملک میں شدید احتجاجی مظاہروں اور 19 مظاہرین کی ہلاکت کے بعد فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عائد پابندی ختم کردی۔
گزشتہ ہفتے حکومت نے سوشل میڈیا پر رجسٹریشن قوانین کی خلاف ورزی، جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے نفرت انگیزی، جھوٹی خبریں اور آن لائن فراڈ پھیلانے کے الزامات پر فیس بک، انسٹاگرام، ایکس (ٹوئٹر) اور دیگر پلیٹ فارمز کو بند کر دیا تھا۔ تاہم اس اقدام کے خلاف عوامی ردعمل شدت اختیار کرگیا اور ہزاروں نوجوان دارالحکومت کٹھمنڈو میں پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر جمع ہوکر سراپا احتجاج بن گئے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین نے نہ صرف سخت نعرے بازی کی بلکہ کچھ افراد نے رکاوٹیں توڑ کر پارلیمنٹ کے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن، آنسو گیس، لاٹھی چارج اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔ اس کارروائی کے نتیجے میں 19 مظاہرین ہلاک اور 100 سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔
مظاہرین کی ہلاکتوں اور بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے بعد حکومت نے پیر کی رات ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا، جس میں عوامی مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے سوشل میڈیا پر عائد پابندی فوری طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس موقع پر نیپال کے وزیراعظم نے جاں بحق ہونے والے مظاہرین کے اہلِ خانہ سے افسوس اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مالی امداد کا اعلان کیا، جبکہ زخمیوں کو سرکاری سطح پر مفت علاج فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر لگائی گئی پابندی کے خاتمے سے وقتی طور پر عوامی غصے میں کمی آئے گی، تاہم حالیہ واقعات نے حکومت اور عوام کے درمیان کشیدگی کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔