دو ناقابل فراموش زخم
از قلم غنی محمود قصوری
یوں تو اس کرہ ارض پر ارض پاک پاکستان کے کئی دشمن ہیں مگر ان میں سے سب سے زیادہ کمینہ اور بدخصلت دشمن انڈیا ہے اس بزدل اور کمینے دشمن کی طرف سے اس ارض پاک کو کئی زخم دئیے گئے ہیں مگر دو زخم نا قابل فراموش ہیں جن میں ایک زخم آج سے 49 سال قبل سقوط ڈھاکہ اور دوسرا آج سے 6 سال قبل سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کی صورت میں دیا گیا –
دنیا جانتی ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان انڈیا سینڈوچ کی طرح تھاگو کہ مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان 1600 کلومیٹر کا فاصلہ تھا مگر پھر بھی ہمارا دشمن انڈیا بنگالی پاکستانیوں اور مغربی پاکستانیوں کے نرغے میں تھا جب دل کرتا دشمن کی گردن دبا دی جاتی تھی جس سے دشمن ہر وقت خوف زدہ رہتا تھا انڈیا نے اپنے سینڈوچ ہونے کا عملی مظاہرہ 1965 کی پاک انڈیا جنگ میں دیکھا بھی تھا سو اس شاطر اور بدخصلت ہندو مکار نے خود کو محفوظ کرنے کی خاطر اپنوں کو اپنوں کے خلاف کرتے ہوئے بنگالیوں میں مغربی پاکستان کے خلاف زہر بھر کر مکتی باہنی نامی مسلح تنظیم بنوائی جس نے اپنے ہی بھائیوں پر مسلح حملے کئے قتل و غارت گری کی اور نام مشرقی پاکستان میں موجود پاکستان آرمی کا لگایا-
ہندو کے اس ناپاک مقصد کو تقویت مشرقی و مغربی پاکستان کے اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں نے قومیت، صوبائیت اور فرقہ واریت کے نام پر دی اور یہ آگ بھڑکتی ہو چلی گئی-
حقائق سے نابلد اور اسلام سے بیزار لوگوں پر مشتمل مکتی باہنی کے لوگوں نے اپنی ہی فوج پر مسلح حملوں کو تیز تر کر دیا اور ساتھ ہی انڈیا نے فوجی جھڑپیں بھی شروع کر دیں جس کا ہمارے فوجی جوانوں نے جواں مردی سے مقابلہ کیا مگر اپنوں کی غداری کم وسائل کے باعث آخر کار انہیں 16 دسمبر 1965 کو ہتھیار ڈالنے پڑے جسے آج تاریخ سقوط ڈھاکہ کے نام سے جانتی ہے اس دن مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا یہ دن ہر محب وطن پاکستانی کو رنجیدہ کر جاتا ہے-
انڈیا نے پاکستان کے خلاف سازشیں جاری رکھیں کبھی بی ایل اے تو سندھو دیش تو کبھی فرقہ واریت کو پروان چڑھا کر انڈیا کی اس سائبر وار کوپاکستانی بہت حد تک جان گئے ہیں-
ایک بار پھر اس سقوط ڈھاکہ کے دن کو یاد کرکے رنجیدہ ہوتے پاکستانیوں پر وار کرتے ہوئے دوسروں کے کندھوں کا سہارا لینے والے انڈیا نے پاکستانی قوم سے دشمنی کی انتہاہ کرتے ہوئے سقوط ڈھاکہ کے 43 سال بعد 16 دسمبر 2014 کو پاکستان کے صوبہ کے پی کے کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں واقع آرمی پبلک سکول پر اپنے پے رول پر کام کرنے والی خارجی جماعت تحریک طالبان پاکستان کے ہاتھوں حملہ کروا دیا جس کے نتیجے میں معصوم بچوں سمیت 147 نہتے لوگ شہید ہو گئے تھے اس سکول میں آرمی اہلکاران کے بچوں کے علاوہ سیویلن کے بچے بھی پڑھتے ہیں اور پوری دنیا اس قتل عام پر رنجیدہ ہے کہ دشمن ذس قدر بھی گر سکتا ہے کہ بچوں سے بھی دشمنی کی انتہاہ کر دے گا کیونکہ بچے تو معصوم اور فرشتوں کی مانند ہوتے ہیں-
انڈیا اور اس کی جدید مکتی باہنی تحریک طالبان پاکستان نے سمجھا تھا کہ وہ ڈرا دھمکا کر تعلیم کے زیور سے بچوں کو دور کر دیں گے مگر ہمارے بچوں نے نعرہ لگایا ،مجھے ماں اس سے بدلہ لینے جانا ہے مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے، جس سے انڈیا کے دل پر تیر چلے کہ یہ کیسی قوم ہے جس کے بچے گولیاں کھا کر بھی بدلہ لینے کی بات کرتے ہیں-
ساری دنیا جانتی ہے انڈیا نے اب تک پاکستان میں تخریب کاری کروا کر ہزاروں واقعات میں کئی ہزار پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے مگر سقوط ڈھاکہ اور سانحہ اے پی ایس پشاور نا قابلِ فراموش زخم ہیں جن کا قرض چکانا اور انڈیا سے بدلہ لینا ہر سچے محب وطن پاکستانی پر قرض بھی ہے اور فرض بھی-
آج انڈیا پھر ایک بار ہم پر اپنی سائبر وار مسلط کر رہا ہے جس کا مقابلہ ہر پاکستانی نے کرنا ہے کیونکہ روائتی جنگ فوج لڑتی ہے اور ہماری فوج انڈیا کو اس کی اوقات یاد کروا چکی ہے جس کی تازہ مثال 27 فروری کو اس کے علاقے میں جا کر اس کے طیارے گرا کر واپس پلٹنا اور پھر انڈیا کا ساری دنیا کے سامنے میاؤں میاؤں کرنا ہے-
انڈیا کے یہ دو زخم سقوط ڈھاکہ اور سانحہِ پشاور جو اس نے ہمیں اپنے کے ہاتھوں دلوائیں ہیں ناقابل فراموش ہیں-