20 ننھے جنازے، کوئی قاتل نہیں؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفیٰ بڈانی
کمشنر ساہیوال نے پاکپتن کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو) میں 16 سے 22 جون 2025 کے دوران 20 بچوں کی اموات کا نوٹس لے کر ایک نئی انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے جو ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال کے تکنیکی عملے پر مشتمل ہے۔ یہ کمیٹی پانچ دن میں نئے سرے سے تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرے گی۔ ذرائع کے مطابق ان چھ دنوں میں چلڈرن وارڈ میں 20 بچوں کی اموات رپورٹ ہوئیں جن میں 15 نومولود اور 5 ایک سال سے کم عمر بچے شامل تھے۔ خاص طور پر 19 جون کو 5 بچوں کی موت ہوئی۔ والدین نے الزام لگایا کہ عملے کی غفلت، آکسیجن کی کمی اور ادویات کی عدم دستیابی نے ان معصوم جانوں کو نگل لیا۔ ایک والد نے بتایا کہ ان کے نومولود کو آکسیجن کی ضرورت تھی لیکن وارڈ میں عملہ غیر حاضر تھا اور جب ڈاکٹر آیا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ ایک ماں نے بیان کیا کہ ان کے بچے کو بخار کی دوا تک بروقت نہ دی گئی اور جب تک معائنہ ہوا، بچہ دم توڑ چکا تھا۔ یہ سانحہ نہ صرف پاکپتن بلکہ پورے ملک کے لیے ایک دردناک لمحہ ہے، جو نظام صحت کی زبوں حالی کو بے نقاب کرتا ہے۔

حیران کن طور پر ابتدائی سرکاری انکوائری رپورٹ نے ڈاکٹرز اور نرسز کو کسی بھی قسم کی غفلت سے بری الذمہ قرار دیا اور کوئی ذمہ دار شناخت نہ کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ عملے کی تربیت ناکافی تھی لیکن اسے جرم یا غفلت قرار نہ دیا گیا۔ اس کے بجائے صرف نچلے درجے کے ملازمین جیسے سویپرز اور وارڈ بوائز کو ہٹانے کی سفارش کی گئی۔ یہ رپورٹ انصاف کے بجائے ایک ایسی کوشش لگتی ہے جو ہسپتال کے اعلیٰ حکام اور انتظامیہ کی ناکامیوں پر پردہ ڈالتی ہے۔ اگر عملہ تربیت یافتہ نہیں تھا تو اسے حساس نیونیٹل وارڈ میں کس نے تعینات کیا؟ کیا تربیت کی کمی کو جواز بنا کر 20 بچوں کی اموات کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ اصل ذمہ داروں کو بچانے کی کوشش نہیں؟

پاکپتن کے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں بنیادی طبی سہولیات جیسے آکسیجن، ادویات اور تربیت یافتہ عملے کی شدید کمی رہی۔ والدین کے مطابق وارڈ میں اکثر اوقات ڈاکٹرز غیر حاضر ہوتے تھے اور نرسز کی تعداد بھی ناکافی تھی۔بے روزگاری ،غربت اور بجلی کے بھاری بلوں کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں پر دباؤ بڑھ گیا۔ نجی ہسپتالوں کے اخراجات برداشت نہ کرنے کی وجہ سے غریب عوام سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، لیکن وہاں بدحالی اور سہولیات کی کمی نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا۔ صحت کا شعبہ براہ راست وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ اگر سوات میں 12 افراد کے ڈوبنے پر کے پی حکومت اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپورذمہ دار ہیں اور ان سے استعفےٰ کا مطالبہ جائز ہے تو پاکپتن میں 20 بچوں کی اموات پر پنجاب حکومت کی خاموشی کیوں؟کیا ان 20 معصوموں کی ہلاکت کی ذمہ دار مریم نواز نہیں ہیں ؟ کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟

یہ سانحہ صرف ایک ہسپتال کی ناکامی نہیں بلکہ پورے نظام صحت کی زبوں حالی کا ثبوت ہے۔ اگر 20 معصوم بچوں کی اموات کے بعد بھی کوئی جوابدہ نہیں تو یہ نظام غریب کے لیے موت کا پروانہ ہے۔ ہسپتال جو زندگی کی امید ہوتے ہیں، آج پاکستان میں موت کے گہوارے بن چکے ہیں۔ کمشنر ساہیوال کی نئی انکوائری کمیٹی سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ اس سانحے کی غیر جانبدارانہ چھان بین کرے گی ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کمیٹی اصل ذمہ داروں کو بے نقاب کر پائے گی؟ اس سانحے کی مکمل اور شفاف تحقیقات کے لیے ایک آزاد جوڈیشل انکوائری ناگزیر ہے۔ جنہوں نے غیر تربیت یافتہ عملے کو بھرتی کیا، جنہوں نے سہولیات کی فراہمی میں کوتاہی برتی اور جنہوں نے والدین کی چیخوں کو نظر انداز کیا، ان سب کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ صرف نچلے درجے کے ملازمین کو قربانی کا بکرا بنانا انصاف نہیں بلکہ ناانصافی ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کو یقینی بنایا جائے، طبی عملے کی تربیت کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور ہیلتھ کارڈ جیسے پروگراموں کو بحال کیا جائے تاکہ غریب عوام کو علاج کی سہولت مل سکے۔ پاکپتن کے 20 ننھے جنازوں نے ہر پاکستانی کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اس نظام کی عکاسی ہے جو طاقتور کو تحفظ دیتا ہے اور غریب کی جان کو معمولی سمجھتا ہے۔ کیا ہم اس نظام کو بدلنے کے لیے آواز اٹھائیں گے؟ کیا 20 معصوم جانوں کا خون رائیگاں جائے گا؟ کیا وزیراعلیٰ پنجاب اس سانحے کی ذمہ داری قبول کریں گی؟ کیا نئی انکوائری کمیٹی محض ایک رسمی کارروائی ثابت ہوگی یا انصاف کی طرف پہلا قدم؟ کیا ہمارے ہسپتال کبھی زندگی کی امید بن پائیں گے یا موت کے گہوارے ہی رہیں گے؟ یہ چبھتے سوالات ہر پاکستانی کے ذہن میں گونج رہے ہیں اور ان کے جوابات ہی ہمارے معاشرے کے مستقبل کا تعین کریں گے۔

Shares: