سڈنی کے مشہور ساحلی علاقے بونڈی بیچ میں اتوار کو ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد 24 زخمی مریض اب بھی سڈنی کے مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
نیو ساؤتھ ویلز (NSW) ہیلتھ کے ترجمان کے مطابق 16 مریض مستحکم حالت میں،5 مریض نازک مگر مستحکم حالت میں،3 مریض انتہائی نازک حالت میں ہیں،ترجمان نے بتایا کہ مریضوں کو بتدریج اسپتالوں سے ڈسچارج کیا جا رہا ہے، تاہم بعض افراد کو ابتدائی ڈسچارج کے بعد مزید علاج کے لیے دوبارہ اسپتال لایا گیا۔
ادھر، حملے کے متاثرین سے اظہارِ یکجہتی اور سوگ کے اظہار کے لیے سڈنی اور آسٹریلیا کے دیگر شہروں میں غیرمعمولی مناظر دیکھنے میں آئے۔ سڈنی میں بونڈی پویلین کے باہر قائم یادگاری مقام پر سینکڑوں افراد نے پھول رکھے اور شمعیں روشن کیں۔ مقامی رہائشی ایک دوسرے کو گلے لگاتے، دعا کرتے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر خراجِ عقیدت پیش کرتے دکھائی دیے۔مقامی رہائشی سیم چپکن نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا،“میں واقعی اس سانحے کو قبول کرنے میں شدید مشکل محسوس کر رہا ہوں۔ ہمارے خاندان کو اپنے 9 اور 10 سالہ بچوں سے جو باتیں کرنی پڑیں، وہ ہمیں توڑ کر رکھ گئی ہیں۔ یہ ہمارے یہودی کمیونٹی کے لیے ایک افسوسناک دن ہے، بونڈی کمیونٹی کے لیے غم کا دن ہے اور پورے آسٹریلیا کے لیے دل دہلا دینے والا دن ہے۔”
منگل کو آسٹریلیا میں اسرائیل کے سفیر امیر مائیمون نے بھی جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور یہودی برادری کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کا مطالبہ کیا۔ سڈنی میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا،“میرا دل ٹوٹ چکا ہے۔ میں ان لوگوں کو جانتا تھا اور ان سے ملا بھی تھا جو اس حملے میں مارے گئے۔”
یہ حملہ تقریباً 30 برسوں میں آسٹریلیا کا بدترین دہشت گرد واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پیر کی شام ملک بھر میں جاں بحق افراد کی یاد میں دعائیہ تقریبات اور شمع بردار اجتماعات منعقد کیے گئے۔ اس کے علاوہ لندن میں آسٹریلیا ہاؤس اور نیویارک کی یشیوا یونیورسٹی میں بھی سینکڑوں افراد نے متاثرین کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔حکام کے مطابق صورتحال پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے جبکہ متاثرہ خاندانوں کے لیے نفسیاتی اور طبی امداد کا عمل جاری ہے۔








