27 رمضان المبارک اورپاکستان

27 رمضان المبارک اورپاکستان
تحریر: سید سخاوت الوری
جب نزولِ قرآن کی پرنور ساعتیں تھیں، اللہ کے نیک بندے عبادت میں مصروف تھے۔رب العالمین کی رحمت کے طلبگار تھے۔ آسمان سے نور کی بارش ہورہی تھی۔فرشتے عبادت گزار بندوں پر رحمتیں نچھاور کررہے تھے۔تہجد گزار سجدے میں جھکے، سبحان ربی الاعلی کا صدق دل سے اظہار کررہے تھے۔سجدوں سے سر اٹھے توآنکھوں سے آنسو رواں تھے۔دعا صادق دل سے نکلی۔ اے ہمارے رب، دکھیاروں کے پالن ہار، بے سہاروں کے سہارے، ہم گناہ گاروں کو، سیاہ کاروں کو، اپنے پیارے حبیب ۖکے صدقے ایک ایسی زمین، ایک ایسا ملک عنایت فرما، جہاں ہم آزادی سے تیری عبادت کرسکیں، تیرا دیا ہوا قانون نافذ کرسکیں۔ ایک قوم کی حیثیت سے زندگی گزار سکیں۔ جہاں کسی کو کسی پر برتری نا ہو، سوائے تقویٰ کے ۔
جہاں تیرے دئیے ہوئے رزق سے کوئی محروم نہ رہے۔
کوئی بھوکا نہ سوئے، ہر شخص کو اس کا حق ملے، بزرگوں کا احترام ہو، بچوں سے پیار ہو، جان و مال، عزت و آبرو محفوظ ہو۔
مسلمانوں نے بلاتعصب، رنگ و نسل، ایک قوم ہوکر، رو رو کر، گڑگڑاکر دعا کی۔
ستر(70) ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے اللہ تعالی سے اپنے بندوں کی آہ و زاری دیکھی ناگئی۔رحمت خداوندی جوش میں آئی، فرشتوں کو حکم دیا ”کن” فرشتوں نے جواب دیا ”فی کن” اللہ کے نیک بندوں کے دلوں سے آواز نکلی۔ تیرا انعام پاکستان۔۔۔۔۔۔!
تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے، تکرار کی زندہ تعبیر، 20لاکھ شہدا کے خون، لاکھوں ماؤں، بہنوں، اور بیٹیوں کی عزت و آبرو کا صدقہ، پاکستان عالم وجود میں آگیالیکن یہ کیا؟
ہم اللہ سے کئے گئے وعدے بھول گئے؟
اس کی تعلیم بھول گئے؟
اس کے حبیب ۖ کا واسطہ بھول گئے؟
نفسانفسی اور خودغرضی کے سمندر میں غرق ہوگئے، غریبوں کا حق مارنے لگے، حرام، حلال کی پہچان بھول گئے۔
جائز و ناجائز کی شناخت کھودی۔ ماں، بہن اور بیٹی کا احترام بھول گئے۔
بچوں سے پیار اور بزرگوں کا مقام بھول گئے اور جان، مال، عزت و آبرو کے لٹیرے بن گئے۔
گویا، اپنا کام سیدھا، بھاڑ میں جائے عیداکی زندہ تصویر بن گئے۔
تاریخ گواہ ہے۔۔۔۔۔۔!
نافرمان قومیں تباہ و برباد ہوگئیں۔
دریا برد ہوگئیں۔
اور کیا تم بھول گئے؟
ابھی کل کی بات ہے۔2005 ء کا زلزلہ، اللہ کی ناراضگی کا معمولی سا اظہار، انسان، لاچار، شہر ویران، بستیاں تباہ حال، ایک لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔ پھر بھی سبق نہیں سیکھا۔پھر رحمتوں اور برکتوں کے مہینے رمضان المبارک میں شہر کراچی میں آگ کی بارش بھول گئے۔تقریبا ڈھائی ہزار افراد شدت گرمی سے جھلس گئے۔ سڑکیں لاشوں سے اٹ گئیں، مردے اٹھانے والے کم پڑ گئے۔ قبریں کم پڑگئیں۔ سرد خانوں میں لاشیں سڑنے لگیں۔ تم اب بھی استغفار کیلئے آمادہ نہیں۔
نفرتوں میں تقسیم، سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچی اور مہاجر میں فخر محسوس کررہے ہو، تم نے ایک قوم بن کر پاکستان حاصل کیا تھا۔ اب تم کدھر جارہے ہو؟میرے آفاقی ساتھیو! آ، اٹھو، کمر کسو، اور اللہ کی دی گئی نعمت پاکستان کے حصول کیلئے اپنے بزرگوں کے عزمِ عالیشان کو عملی جامہ پہنائیں۔ تاکہ آنے والی نسلیں بھی کہیں : اے نگارِ وطن تو سلامت رہے۔۔۔۔۔۔!

Leave a reply